کئی دن سے گھر میں سبزی نہیں پکی تھی جمعہ المبارک کا دن تھا کام سے چھٹی تھی۔ بیوی نے مصومیت سے کہا سر تاج کئی دن سے گھر میں سبزی نہیں پکی۔ آج تو سبزی لے آئیے۔بیوی کا حکم سر آنکھوں پر،آخر گھر کی حکومت جو ان کی ہے۔ شوہر بھلے باہر کی دُنیا میں وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو گھر میں نوکر ہی ہوتا ہے۔ یعنی گھرکی وزیراعظم بیوی ہی ہوتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے وزیراعظم حکم صادر فرمائیں اور عمل درآمد نہ ہو۔ کریں بھی تو کیا کریں، حکم نہ ماناتو روٹی سے گئے، سزا الگ، جہاں بھر کی رسوائی الگ شوہر میاں گھر کے وزیراعظم کا حکم ملتے ہی تھیلا ہاتھ میں لئے سبزی منڈی روانہ ہو گئے۔ سبزی منڈی کیا حال ہوا، مت پوچھئے صبح سورج نہیں نکلا تھا گئے اور دن کے بارہ بج گئے کچھ لے نہ سکے۔ کیسے لیتے؟
جیب میں بمشکل پانچ سو پڑے تھے اور سبزیوں کے ریٹ تھے کہ آسمان کو چھو رہے تھے۔ جس سبزی کا ریٹ پوچھا، دوسرے لمحے بجلی کا جھٹکا لگتا۔ سانسیں تھیں کہ اکھڑ رہی تھیں۔ دم بے دم ہو رہا تھا۔گرمی سے بُرا حال تھا۔ شوہر میاں مرتے کیا کرتے چپ چاپ آگے بڑھتے دوسری سبزی کے پاس جا پہنچتے تھے۔ اسی دوران شوہر میاں کی ملاقات آلومیاں سے ہو گئی۔ واحد آلو ہی ہے جوہرسبزی کا شوہر ہے۔ سر پر حکمرانی کا تاج سجائے بے نیازی سے آرام فرما رہے تھے۔ نخرے تھے کہ آسمان کو چھو رہے تھے۔ ریٹ کا پوچھا تو اپنے آپ کو تیس مار خان کہنے لگے۔ارے آلو میاں اتنے مہنگے کیوں ہو؟ آلو میاں فرمانے لگے۔
جناب میرے بس میں ہوتا تو مفت میں ہر گھر میں ہوتا مگر پھوٹی قسمت انسانی روپ میں حیوانوں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ ان تاجروں نے مجھے قید کر لیا ہے۔ اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے میرے بھائو بڑھاتے جاتے ہیں۔ ان تاجروں کے بھی تو اخراجات ہوتے ہیں۔ بجلی کا بھاری بل، پانی کا بل، بیوی کے میک اپ کا بل، بچوں کے اسکول کی فیس، نوکرانی کی تنخواہ، اور تو عیاشی بھی کرنی ہوتی ہے۔ شراب خانے بھی جانا ہوتا ہے۔ سگریٹ بھی پینی ہے۔ ان کو دوش مت دوں صاحب کیا ہوا جو ان کے ہاں پڑے پڑے میں اپنی فوائدیت گنوادیتا ہوں۔ میرا ذائقہ نمکین سے میٹھا ہو جاتا ہے۔ جب میری رنگت اور ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے پھر یہی تاجر مجھے کسی گندگی کے ڈھیر پر پھینک کر چلتے بنتے ہیں میں کیا کروں بے بس ہوں، قیدی ہوں قیدی کو کون رہائی دیتا ہے۔ آلو میاں آنسو بہانے لگے تومیں بھنڈی کے پاس چلا گیا۔
بھنڈی مجھے دیکھتے ہی چیخنے چلانے لگی اے صاحب مجھے دوش مت دینا میں بُری نہیں ہوں۔ اپنے نظام، اپنی سوسائٹی کو بُرابھلا کہوں جہنوں نے مجھے آپ کی دسترس سے دور کیا ہے۔ مجھے یرغمال کیا ہے غریبوں سے دور اور امیروں کے گھروں کی زنیت بنایا ہے غریب تو مجھے خالص پکایا کرتے تھے مگر امیروں کی نہ پوچھو کبھی گوشت میں بھون رہے ہیں کبھی کڑھائی میں تل رہے ہیں۔ کبھی کریلوں میں بھر رہے ہیں نخرے کرکر کے کھاتے ہیں اور غریبوں کے بچے میرے لئے بلک رہے ہیں اے کاش پیدا ہوتے مجھے سنڈیاں کھا جاتی۔ انسان اتنا بدل جائے گا، سوچا نہ تھا، اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی حق تلفی کرے گا۔ اشرف المخلوقات ہو کر حیوانوں سے کہیں آگے چلا گیا ہے۔
جب بھنڈی مجھ سے منہ بسور رہی تھی تو میں چپکے سے پیازوں کے ڈھیر کے پاس جا ٹھہرا سوچا اتنا ڈھیر لگا۔ضرور سستے مل جائیں گے مگر کہاوت ہے نا” دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں نزدیک جائوں تو کان کھاتے ہیں۔ وہی ہوا پیازوں نے بھی نخرے کئے بدبو سے میری سانسیں بند ہوئی جا رہی تھیں مگر پیاز میری دسترس میں آنے سے گھبرا رہے تھے۔ ابھی پیازوں سے بحث جاری تھی کہ دور سے ٹماٹروں نے مجھے آواز دی، اے میاں! ہمارے پاس آئو۔ہماری سنو!
Tomato
میں تھکا ہارا ٹماٹروں کے پاس جا پہنچا! اے میاں !یہ سبز منڈی ہے۔تمھاری دال گلنے والی نہیں ہے۔ پوری منڈی میں ایک ہی سستا ہوں۔ مجھے لے چلو۔ اب کی بار میرا پارہ بھی ہائی ہو گیا۔ اے ٹماٹر صاحب کبھی تیرے تیور بھی تو آسمان کی بلندیوں کو چھوتے تھے۔ اب کیا ہوا عروج کو زوال آ گیا۔ ایک وقت تھا میرے جیسے غریب تیرے لئے ترستے تھے۔ اب تو تجھے بکریاں بھی منہ نہیں مارتی، میں کیسے لے جائوں؟ دوسرا غم یہ بھی ہے، تیراسالن نہیں بن سکتا۔ ٹماٹر صاحب پھر بولے اے شوہر میاں! مجھے بتائوںایک وقت تھا۔
پرویز مشرف تیرے ملک کے صدر تھے۔ آج دیکھوں بیچارے عدالتوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔ اپنے سابق صدر زرداری کو ہی لے لو اپنی بیوی کے دور حکومت میں جیل میں رہے۔ پھر جیل سے نکل کر چھکا مار ااور ملک کے صدر بن گئے۔اور تواور اپنے موجودہ وزیراعظم کو ہی دیکھو کتنا عرصہ جلاوطنی کاٹی اور اب ملک کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں۔ میری حالت بھی ایسی ہی ہے۔ کبھی مجھے ان تاجروں نے آسمان کی بلندیوں پر چڑھایا تھا۔ اب سردیوں تو آنے دوں پھر دیکھنا حکومت میری ہو گی۔ میری مانو! مجھے ہی لے جائو وقت بدلے گازوال سے پھر عروج آئے گا۔ میں دعاگو ہوں آپ کی اور آپ جیسے غریبوں کی بھی قسمت جاگ اٹھے۔
آپ کے مسائل بھی حل ہوں تمھارے وعدے بھی پورے ہوں مدتوں سے تم جو خواب دیکھتے آئے ہو، پورے ہوں۔ تمھیں بھی اقتدار ملے۔تم بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالو۔ غریبوں کا بھلا ہو۔ تمھارے ملک کی حالت بدلے، تمھارا ملک قرض سے نجات پا سکے۔ ٹماٹر میاں! نجانے کیا سے کیا کہہ رہا تھا۔ میں نے چند روپوں میں ٹماٹروں سے تھیلا بھر ا اور گھر کی راہ لی۔ میری خوشی دیدنی تھی۔ ایک خوشی یہ کہ مجھے ٹماٹروں نے سیاستدانوں کی طرح خواب دیکھائے تھے اور دوسری خوشی یہ کہ سستے بہت تھے۔
گھر آیا تو بیوی کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ ٹماٹروں سے بھر اتھیلا دیکھا تو تمام کارگردگی کو پست پردہ ڈال کر مجھے جلا وطن کر دیا۔ اب میں نواز شریف کی طرح جلاوطنی کاٹ رہا ہوں۔ ظاہر ہے ان کو بھی اپنوں نے مارا ہو گا مجھے بھی اپنے ٹماٹروں نے مارا۔ جس طرح نواز شریف کی قسمت بدلی ہے دعا کرنا کہ میری قسمت بھی بدل جائے۔ میری جلاوطنی بھی ختم ہو جائے اور میں اپنے گھر کا حکمران بن جائوں۔ یقین کروں پھر کبھی بھی ٹماٹروں کو منہ نہیں لگائوں گا۔ چاہے فاقہ کشی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔