احمد آباد، گجرات کے 2002 کے مسلم کش فسادات کا ذمہ داری موجودہ نومنتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹھہرایا جاتا ہے تاہم وہ ہمیشہ اس بات سے انکار کرتے رہے لیکن اس کا ایک اور ثبوت اس بات سے مل جاتا ہے کہ ابھی انہوں نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالی بھی نہ تھیں کہ چند گھنٹے قبل ان کی ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی کئی املاک کو آگ لگادی ہے۔
اتوار کی رات ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد کے علاقے گومتی پور میں شادی کی تقریب کے دوران دو گاڑیوں کے درمیان ٹکر ہوگئی ، معمولی ٹریفک حادثہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم کش فسادات کی شکل اختیار کرگیا اور انتہا پسندہندوؤں نے کئی دکانوں، ایک بس اور دیگر املاک کو آگ لگادی۔ پولیس نے شر پسندوں پر قابو پانے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے 4 افراد زخمی ہوگئے۔ 2002 میں نریندر مودی ہی کی وزارت اعلیٰ میں گجرات میں انتہا پسند ہندوؤں نے فسادات کے دوران ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید اور درجنوں خواتین کی عصمت دری کی تھی اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کی املاک کو بھی تباہ کردیا گیا تھا۔بھارت میںبی جے پی لیڈر نریندر مودی کی حکومت آتے ہی ہندو انتہا پسندوںنے نماز فجر کی اذان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے۔
جب تک اذان فجر پر پابندی نہیں لگائی جاتی وہ اپنی اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔ اس سلسلہ میں ہندو انتہا پسند تنظیموں سناتن سنستھا، راشٹریہ ہندواندولن، ہندوجن جاگرتی سمیتی اور بھارت کرانتی سینا کے اہلکاروں نے مینگلور ڈی سی دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ڈی سی مینگلور آفس کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین نے ہاتھوںمیں کتبے اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر متنازعہ نعرے درج تھے۔ اس موقع پر ہندو انتہا پسند تنظیم سناتن سنستھا کی لیڈر وجے کلشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بھارت میں سبھی مذاہب کو آزادی دی گئی ہے، لیکن کسی ایک خاص مذہب کے لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس سے تکلیف ہوگی۔ ہندو جن جاگرتی سمیتی کے لیڈر وویک پائی نے کہاکہ سکون کے ساتھ نیند کرنا ہر فرد کا ایک بنیادی حق ہے، اس لئے فجر کی اذان پر پابندی لگائی جائے کیونکہ مسلمان جان بوجھ کر ماحول میں صوتی آلودگی پیدا کررہے ہیں۔
اسی طرح جو لوگ فجر کی اذان کے لئے لائوڈاسپیکر استعمال کرتے ہیں انہیں گرفتارکرتے ہوئے سزا دی جائے۔ بھارت کرانتی سینا کے چیف پرناونندا سوامی’ جنہوں نے جنوری میں خود کشی کی کوشش کی تھی خطاب کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بنگلور میں عیسائیوں کے پروگرام پر بھی پابندی عائد کی جائے، انہوں نے کہاکہ یہ احتجاج فجر کی اذان پر پابندی لگائے جانے تک جاری رہے گا۔نریندرا مودی نے بھارت کے 15ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے، بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے نریندرا مودی سے حلف لیا۔ حلفیہ تقریب میں سارک ممالک سربراہان نے شرکت کی، جس میں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی شامل تھے۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نواز شریف کو منموہن سنگھ کی برابر والی نشست دی گئی۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم تقریب میں شرکت نہ کرسکیں، ان کی جگہ اسپیکر بنگلادیش اسمبلی شرمین چوہدری نے شرکت کی۔ حلف اٹھانے کی تقریب کے موقع پر بھارتی دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے اور لگ بھگ 15ہزار سکیورٹی اہلکاروں نے سکیورٹی کے انتظام سنبھالے۔ تقریب میں افغان صدر حامد کرزئی نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف، افغان صدر حامد کرزئی، سری لنکا کے صدر راجا پاکسے، بھوٹان کے وزیراعظم شے رنگ توبگے، نیپالی وزیراعظم سشیل کوئرالہ کے علاوہ سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی اہلیہ، کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی اور بولی وڈ اسٹارز نے شرکت کی۔ بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے نریندرا مودی سے بھارت کے 15ویں وزیراعظم کا حلف لیا۔ بھارتی وزیراعظم نے ہندی میں حلف اٹھایا۔
اس سے قبل وزیراعظم محمد نواز شریف بھارت کے نو منتخب وزیراعظم نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے راشٹریہ بھون پہنچنے تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی آمد پر تالیاں بجا کر اور حاضرین نے کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ، بی جے پی کے رہنماء ایل کے ایڈوانی اور سابق بھارتی صدر عبدالکلام اور دیگر شخصیات کے ساتھ مصافحہ کیا، خوشگوار جملوں کا تبادلہ کیا اور خیریت دریافت کی۔ بھارت پہنچنے پروزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی، خوف اور نفرت کو ختم کرنا ہوگا۔وقت آگیا ہے کہ خطے کو عدم استحکام اور عدم تحفظ کے ماحول سے نکالیں۔، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو وہیں سے دوبارہ جوڑنا چاہتے ہیں جہاں سے 1999 میں وہ اور بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی لے کر گئے تھے۔
اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی، خوف اور نفرت کو ختم کرنا ہوگا۔نوازشریف نے کہا کہ انہیں بھارت کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے کوئی خدشات نہیں، یہ اْسی جماعت کے وزیر اعظم ہیں جن سے اٹل بہاری واجپائی تعلق رکھتے تھے، وہ بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے مثبت نتائج کے لئے پرامید ہیں اور اس ملاقات کو خطے کے لئے انتہائی اہم موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ دورہ بھارت کے حوالے سے ان پر کسی بھی قسم کا داخلی دباؤ نہیں تھا، دورے کے اعلان میں تاخیر مشاورت کی وجہ سے ہوئی۔مودی کی طرف سے نواز شریف کو دورہ بھارت کی دعوت پر پاکستان بھر کی محب وطن جماعتوں نے شدید رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ نواز شریف کو نہیں جانا چاہئے لیکن وزیر اعظم صاحب چلے گئے اور مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔
وہ مودی جو ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے،وہ مودی جس نے الیکشن پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑا ہے۔وہ مودی جس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔کیا اب نواز شریف بے جی پی کے منشور کے مطابق اور بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی کی بنیاد پر بھارت میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے؟میاں صاحب کو پاکستانی و کشمیری قوم کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔کشمیر ی قوم نے پاکستان کے لئے قربانیاں دیں۔حالیہ الیکشن میں کشمیریوں نے ڈھونگ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پاکستان کے ساتھ محبت اور بھارت کے ساتھ نفرت کا ثبوت دیا اسی لئے جماعت الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان عالم اسلام کے تحفظ کا ضامن ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت جوہری قوت سے زیادہ عالم اسلام کے اتحاد سے ڈرتے ہیں۔ نواز شریف بھارت جا کر اہل کشمیر کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں۔ اگر بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات نہ کی گئی تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ نواز شریف کو بھارت نہیں جانا چاہیے لیکن اگر وہ جاتے ہیں تو پھر بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ، بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی مندر کی تعمیر روکنے اور کشمیر کو آزادی دلانے کی بات کریں۔ بھارت نے نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔ اہل پاکستان اس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ ہم بھارت کی رضامندی کے لیے اہل کشمیر کا اعتماد کھو دیں۔ نواز شریف ماضی کی غلطیوں سے عبرت حاصل کریں۔ آج وہ وقت یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
جب ہندوستان نے اگرتلہ سازش کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کیں اور پھر بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر وسابق وزیراعظم سینیٹر چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف کے دورہ بھارت پر کہا کہ پاکستان کے خلاف بات کرنے کا مطلب پاک افواج کے خلاف بات کرنا ہے، پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف جہاں کہیں بھی بات ہو گی ان کے دفاع کیلئے پاکستان مسلم لیگ باہر نکلے گی۔ نوازشریف اگر دنیا کو دکھانے کیلئے بھارت گئے تو پھر انہیں چاہئے کہ اپنے دورے کو کامیاب کرنے کیلئے گجرات میں شہید کیے گئے مسلمانوں کی قبروں پر بھی جائیں۔
متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے کہاہے کہ نریندر مودی نے کشمیر پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو منہ توڑ جواب دیںگے۔ کشمیرکی آزادی کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر ریاست کی سارے سیاسی اورمذہبی جماعتیں ایک ہیں،شہداء کے خون سے بے وفائی کرنے والے عبرت کا نشان بن چکے ہیں یہ سبق ہے سب کے لیے اگر انھوںنے شہداء کے خون سے بے وفائی کی تو پاک سرزمین ان کے لیے تنگ ہوجائے گی۔ جب تک ایک بھی ہندوستانی فوجی کشمیرمیںموجود ہے اس وقت تک جہاد جاری رہے گا۔ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوںکے سامنے شکست کھاچکی ہے اور کشمیری عملی طوپر بھارت کو شکست دے چکے ہیں۔