یکم مئی عالمی سطح پر مزدروں کے عالمی دن کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں مزدورں کے حقوق کے لیے ریلیاں، مظاہرے، سیمینار او ر حکومتی سطح پر پروگرام مرتب کیے جاتے ہیں۔ مزدور یونین، این جی اوز اور سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے یا پھر صرف نمبر گیم کرنے کے لیے میدان میں آتی ہیں۔ اس دن ہر طرف مزدور کی بات ہورہی ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے مزدور غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو کوئی بولتا ہے کہ مزدور کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔
پاکستان میں بھی یہ دن بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں مزدورں کے حقوق کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں جس میں بڑے بڑے لیڈر تقاریر جھاڑتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ دن مزدوروں کا اور فائدہ امیر اٹھاتے ہیں۔ کبھی کسی این جی او یا سماجی تنظیم نے اس دن کے موقع پر کسی مزدور کو مہمان خصوصی بلایا ہے ؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی دن کسی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے تو پھر اس دن اس شخصیت کو ہر جگہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ہرکوئی اس کے ناز ونخرے برداشت کرتا ہے اور بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ” چلو یار آج اس کا دن ہے” مگر ادھر آوے کا آوابگڑا ہوا ہے۔ نام مزدوروں کے دن ہوتا ہے اور اہمیت امیروں کو دی جاتی ہے۔ اس دن کسی مزدورکو اس ہال میں داخل بھی نہیں ہونے دیا جاتا جس کے پاس غریبی کا کارڈ ہوتا ہے۔ ہال میں بھی وہ داخل ہوں گے جن کا سٹینڈرڈ امیروں کے برابر ہو گا۔ اگر سیمناروں میں بیٹھنے والے مزدور ہیں تو پھر وہ کیا ہیں جو ملوں میں کام کر رہے ہیں ، راج گیروں کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھا رہے ہیں یا سڑکوں پر ٹھیلہ لگا کراپنے بچوںکی روزی کما رہے ہیں۔
مزدوروں کے عالمی دن پر پاکستان میں بتائیں کسی امیر کی فیکٹری یاپٹرول پمپ وغیرہ بند کیے گئے ہوںیا کسی نے اپنے گھر کی تعمیر رکوائی ہو کہ چلو آج ان کا دن ہے اور ان کی چھٹی کردیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ امیر لوگ اس دن کی چھٹی کربھی دیں مگر وہ مزدور کیا کرے گا جس کی شام کی روٹی اس دھیاڑی (ڈیلی ویجز)پر منحصر ہے اگر اس نے چھٹی کر لی تو وہ رات کو اپنے بچوں کو کیا کھلا کر سلائے گا۔
یکم مئی کو پاکستان بھر میں مزدور ہر روز کی طرح اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتے ہیں ان کو اس دن سے کوئی سروکار نہیں، بس اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے سے غرض ہے۔ ویسے یکم مئی کو ہر فورم پر مزدورں کی فلاح و بہبودکے لیے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں، دعویٰ کیا جاتا ہے مگر ان پر کبھی عمل بھی ہوا ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ وہ باتیں صرف میڈیا کی زینت بننے کے لیے کی جاتی ہیں۔ تاکہ دنیا دیکھ لے کہ پاکستان مزدوروں کے حقوق کے لیے کتنی تگ ودو کر رہا ہے۔
Pakistan
کبھی کسی حکومت نے ایسے اقدام اٹھائے ہیں کہ یکم مئی کے دن ان مزدور وں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں(ڈیل ویجز) حکومتی سطح پر کوئی وظیفہ دیکر ان کو چھٹی بھی دی گئی ہو کیونکہ یکم مئی ان کا دن ہے اور وہ اس دن اپنے فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی گزار سکیں۔ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑا کردار ان مزدورکا ہے۔ مینار پاکستان سے لیکر پارلیمنٹ کی تعمیرتک ان مزدور ں کی محنت کا ثمر ہے۔ ان کی تعمیر میں ان میں بیٹھنے والوں کاکوئی حصہ نہیں،ایک کاغذ سے لیکر ایٹمی میزائل تک مزدوروں کی وجہ بنتا ہے۔
پارلیمینٹ میں بیٹھے ہوئے بتائیں کہ ان کے کیفے ٹیریا میں روٹی ،سالن اور چائے کے ایک کپ کی کیا قیمت ہے ؟ کیا ان کی قیمت ایک مزدور کی روٹی کے برابر ہے ؟ مزدور کی روٹی کی قیمت پانچ روپے اور جبکہ پارلیمینٹ میں بیٹھنے والوں کی روٹی کی کیا قیمت ہے؟ یہ سب کو پتا ہے۔ نعرے ہم مزدوروں کے حقوق کے لگاتے ہیں اور فائدہ امیروں کو پہنچاتے ہیں۔ مزدوروں کے فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لیے جاتے ہیں اور مزدوروں پر اگر خرچ کرنے کی نوبت آجائے تو وہ بڑی مشکل سے ہزاروں میں ہوتی ہے۔
یکم مئی کو عالمی چھٹی ہوتی ہے مگر اس دن تمام لوگ اپنے گھروں میں چین کی نیند سورہے ہوتے ہیںیا چھٹی کافائدہ اٹھا کر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور مزدور اس دن بھی مزوری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ اس دن مزدور عام دن کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے شاید اس لیے کہ آج اس کا خصوصی دن ہے۔ ابھی حال ہی میں لاہور میں ساؤتھ ایشیا کی لیبر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 75 غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں سارک ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملکوں کے مزدوروں کے رونے روئے اور آخر میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کر کے کانفرنس ختم کر دی۔ اس کانفرنس پر اربوں روپے خرچ کیے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مزدوروں کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا کبھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے مزدوروں کے عالمی دن پر ان کے لیے کسی پیکج کا اعلان کیا؟ہر گز نہیں پچھلے بجٹ میں حکومت نے مزدورکی تنخواہ نوہزار مقرر کی مگرآج بھی پاکستان میں مزدور کی تنخواہ سات، آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں۔مزدور آج بھی مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ میں تو اپنے مزدور بھائیوں کے لیے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں بقول شاعر مشرق۔۔۔
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
Aqeel Khan
تحریر: عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com