اس دنیائے آب وگل میں انسان کا وجود قدرتِ خداوندی کاعجیب مظہر وپرتوہے ، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے ، بلکہ اس کی وضع وساخت اور اعضاء وجوارح کا تناسب ہی کچھ اس انداز سے رکھا ہے کہ جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، جو اس کے افضل الخلق ہونے کا بین اور واضح ثبوت ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے فہم وادراک اور عقل وشعور کی صلاحیتوں سے نواز کر دیگر مخلوقات کے بالمقابل اس کے امتیازی وصف کو اور زیادہ نمایاں اور اجاگر کردیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو بشمول اس کے اعضاء وجوارح کے ان کے استعمال کے حوالے سے یوں ہی بے مہار نہیں چھوڑا کہ وہ موقع ومحل کی تلاش وجستجو کے بغیر ان کا اندھا دھند اور بے تحاشا استعمال کرے ،بلکہ اللہ رب العزت نے ہر عضو کے لئے اس کا دائرہ عمل ، نصب العین اور طریق کار اور حدود وقیود کا تعین فرمایا کہ کہاں تک اس عضو کااستعمال انسانی وجود کے لئے سود مند اور کارگر ہوسکتا ہے اور کہاں تک اس کے استعمال سے اسے ناکامی ونامرادی اور شکست وریخت کا سامنا ہوسکتا ہے ، انہیں قوی وجوارح میں سے جس سے اللہ عزوجل نے انسانی وجود کو مزین فرمایا ہے فہم ادراک اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت بھی ہے جو انسان کے لئے بنیادی اکائی اور اہم جز کی حیثیت رکھتی ہے؛
تاکہ وہ فہم وشعو رکی صلاحیت کو بروئے کار لا کر خیر وشر کے درمیان تمیز کرسکے ، اچھائی وبرائی کا اندازہ کر کے خدا کی صناعی اور اس کی کاریگری میں غور وخوض کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کر سکے اور اس کے مرضیات کو جان کر اس پر عمل پیرا ہوں اور اپنی اخروی زندگی کو سرخروئی اور کامیابی سے ہمکنار کر سکے ، گویا شریعت کی مکمل اساس اور پوری بنیاد ہی اسی فہم وشعور کی صلاحیت پر موقوف ہے ، اسی امتیازی وصف کی بنا ء پر وہ احکامِ خداوندی کا مخاطب ہے ، یہی وجہ ہے کہ بچہ ، پاگل ، مجنون، اسی طرح سمجھ بوجھ کی صلاحیت سے عاری اشخاص احکامِ خداوندی کے پابند نہیں ہوتے ، عقل کی اسی اہمیت وافادیت کے پیشِ نظر شریعت نے ان تمام چیزوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہے۔
جو اس کے فساد وبگاڑ کا موجب بنتے ہوں ، جن میں سرفہرست شراب اور نشہ کا استعمال ہے۔اس شراب نوشی کے نہ صرف انسانی صحت، جسمانی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ؛ بلکہ اس کا راست اور بلاواسطہ حملہ انسان کے عقل ودماغ پر ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے وقتی طور پر اس کی صلاحیت کار اور قوت فکر وتدبر مفلوج اور اس کے جسم کے کل پرزے بے ہنگام اور غیر مرتب ہوجاتے ہیں ، اس کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں رہ جاتا ، غیر شعوری طور پر شراب پی کرانسان کی حالت حیوانوں سے بھی بد ترہو جاتی ہے ؛ اس لئے اس حالت میں اپنوں اور غیروں کی تمیز ، ماں باپ ، بھائی ، بہن ، دیگر رشتہ داروں کی توقیر وعزت تو درکنار وہ اس حالت میں اول بول بکنے سے بھی نہیں چوکتا، اور وہ زبان سے وہ کچھ کہہ دیتا ہے کہ حالتِ اعتدال میں محض اس کے تصور سے اسے خود اپنی ذات سے گھن اور نفرت ہونے لگے ، اگر وہ شادی شدہ ہوتا ہے۔
تو پھر اس کی عائلی زندگی بھی توڑ پھوڑ اور افراتفری کا شکار ہوجاتی ہے ، جس سے دونوں کی قربتیں دوریوں سے بدل جاتی ہیں ، آپس میں محبت والفت، غمگساری وغم خواری اور ایثار وہمدردی کے بجائے ان کے مابین بغض ، کینہ اور حسد جیسے امراض جنم لینے لگتے ہیں ، بیوی کونہ صرف شوہر کی طرف سے زبانی تکلیف واذیت کو سہنا پڑتا ہے ؛ بلکہ اسے جسمانی اذیت کابھی سامنا ہوتا ہے ؛ پھر یہ آپسی نوک جھونک کا سلسلہ کچھ اور دراز ہوجاتا ہے تو پھر نوبت طلاق تک کی آجاتی ہے ؛ پھر یہاں سے ایک لا محدود اور غیر متناہی مفاسد کا تانتا لگ جاتا ہے ، عورت کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ، اسے بیوگی اور کسمپرسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، بچے والدین کے جیتے جی یتیمی کے تلخ گھونٹ پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، وہ گردش زمانہ اور حالات کی رو میں بہہ کر گداگری اور کاسہ ء لیسی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
Wine
پھر جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو والدین کی اصلاح وتربیت کے فقدان اور عدم رہبری کی وجہ سے چوری ، ڈکیتی ، بدکاری ، شراب خوری اور قمار بازی جیسے بھیانک جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں ، پھر چونکہ یہ بھی معاشرہ کے ایک فرد ہی کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان کی ان حیاء سوز حرکات کا اثر بالواسطہ پوری سوسائٹی پر ہوتا ہے ، اس لئے اگر ملک میں در پیش ہونے والے طلاق کی واردات کا اور دیگر جرائم کا حقیقت پسندی اور باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح اور آشکارا ہوجائے گی کہ چالیس فیصد واقعات کا تعلق شرابیوں سے ہوتاہے، جس کا اندازہ ہر منصف مزاج اور معاشرے کے احوال سے باخیر شخص اپنے ارد گرد کے احوال کا جائزہ لے کر لگا سکتا ہے، پھراسے حضور اکرم ۖ کے حقیقی احوال پر مبنی کلام کے تعلق سے کوئی شک وشبہ نہیں رہ جائے گا کہ شراب فواحش اور بے حیائی کی جڑ ہے اور سب سے بڑا گنا ہ ہے۔
اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا : ” شراب ام الخبائث اور تمام برائیوں کی جڑ ہے ، ، جو شخص شراب پیتا ہے اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے شراب کی حرمت اور اس کی برائی اور قباحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :شرا ب سے بچو، وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اگلے دور میں ایک شخص تھا جو کہ عبادت میں مشغول رہتا تھا اس کو ایک زنا کار عورت نے پھنسانا چاہا چنانچہ (سازش کر کے)اس کے پاس ایک باندی کو بھیجا اور اس سے کہلوایا کہ میں تجھ کو گواہی کے واسطے بلا رہی ہوں چنانچہ وہ شخص چل دیا۔
اس باندی نے مکان کے ہر ایک دروازہ کو جس وقت وہ اس کے اندر داخل ہوتا بند کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ (عبادت گزار شخص) ایک عورت کے پاس پہنچا جو کہ حسین و جمیل تھی اور اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور ایک شراب کا برتن تھا۔ اس عورت نے کہا اللہ کی قسم!میں نے تجھ کو شہادت کے واسطے نہیں بلایا؛ لیکن اس لئے بلایا ہے کہ تو مجھ سے ہم بستری کرے یا اس شراب کا ایک جام پی لے چنانچہ اس عورت نے اس شخص کو ایک گلاس شراب کا پلا دیا۔ اس شخص نے کہا مجھ کو اور (زیادہ شراب) دے پھر وہ شخص وہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹا کہ اس عورت سے صحبت کی اور اس لڑکے کا خون کیا، تو تم لوگ شراب سے بچو کیونکہ اللہ کی قسم ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا دونوں ساتھ نہیں ہوتے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو نکال دیتا ہے۔ ایمان کے غلبہ کی برکت مطلب یہ ہے کہ اگر ایمان کا غلبہ ہوتا ہے تو شراب نوشی کی عادت چھوٹ جائے گی اور اگر شراب نہ چھوڑی تو ایمان کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
M A Tabassum
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور) email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102