کراچی (جیوڈیسک) پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا مسئلہ ایک بار پھر شدت اختیار کرگیا، آئی پی پیز کے حکومت پر واجبات ایک بار پھر 298 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس سے نجی پاور پروڈیوسرز کے لیے بجلی کی پیداوار جاری رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
پاور سیکٹر کے ذرائع کے مطابق خودمختار پاور پروڈیوسرز کو واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب مالی بحران کا سامنا ہے، ادائیگیوں میں تاخیر کے سبب حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کو کی جانے والی سابقہ ادائیگیوں کے اثرات تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور پاور سیکٹر کو اپنی استعداد کار کی بلند سطح برقرار رکھنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں آئی پی پیز کی پیدواری استعداد میں اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2012 سے اپریل 2013 کے دوران آئی پی پیز اپنی 55 فیصد پیداواری استعداد بروئے کار لارہے تھے۔
نئی حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کی ترجیحی بنیادوں پر ادائیگی کے سبب دسمبر 2013 سے اپریل 2014 کے دوران 66 فیصد پیداواری استعداد استعمال کی گئی تاہم اب 298 ارب روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے پاور سیکٹر کے لیے پیداوار کی یہ سطح برقرار رکھنا دشوار تر ہو گیا ہے جس سے بجلی کے بحران میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق 1994 کی پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز کے حکومت پر 141 ارب روپے جبکہ 2002 کی پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز کے واجبات کی مالیت 59 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، جینکوز، چشمہ پاور اور ہائیڈل پاور پراجیکٹ کے مجموعی واجبات کی مالیت 98 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ برس جب گردشی قرضہ ختم کرنے کے لیے مثبت اقدام کیا تھا تو حکومت کے علم میں یہ بات تھی کہ ان قرضوں کے حجم میں اضافہ ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے شرح سود کے باعث ہوا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی پی پیز کو یہ توقع تھی کہ حکومت کی معاشی ٹیم گردشی قرضوں میں دوبارہ اضافہ نہ ہونے کے لیے کام کرے گی اور حکومت نے پہلی فرصت میں پہلے صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے پاور ٹیرف میں اضافہ کیا اور اس کے بعد گھریلو صارفین کے ٹیرف میں اضافہ کیا، پاور ٹیرف میں اضافے کے بعد توقع تھی کہ گردشی قرضوں میں دوبارہ اضافہ نہیں ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوا۔