لاہور (جیوڈیسک) دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ’لانسیٹ‘ نامی طبی جریدے میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن ادارے کے محققوں کی ٹیم نے بدھ کو کہا کہ کہ دو ارب سے زیادہ افراد مجموعی طور پر یا موٹے ہیں یا پھر معمول کے وزن سے زیادہ ہیں۔
اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1980 کے بعد سے کوئی بھی ملک اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں عوامی صحت کو درپیش مسائل کا اب تک کا جامع مطالع کیا ہے جو سنہ 1980 اور 2013 کےدرمیان 188 ممالک سے حاصل کیے جانے والے اعدادو شمار پر محیط ہے۔ عام طور پر اب تک اس کا تعلق کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں سے سمجھا جاتا تھا لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے موٹے لوگوں میں سے 62 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں ہیں۔ چین دوسرے نمبر پر ہے تو بھارت تیسرے نمبر پر۔ موٹاپے سے متاثر ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر جبکہ امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ روس چوتھے، برازیل پانچویں، میکسیکو چھٹے، مصر ساتویں، جرمنی آٹھویں، اور انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلری والے جنک فوڈ اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف ہلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوئیشن کے ڈائرکٹر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے۔
کہ ’موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور آمدنی کے لوگوں کو دنیا بھر میں متاثر کر رہا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔‘
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عوامی صحت کے اس بحران کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس میں متواتر اضافہ ہوگا۔‘ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن والے لوگوں کو ہمیشہ دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس، گٹھیا اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔
تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے موٹاپے میں اضافے سے ان عارضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہیلتھ کیئر نظام بڑے دباؤ میں ہے۔ اس تحقیق کے مصنفوں کا کہنا ترقی یافتہ ممالک میں ایک چوتھائی اور ترقی پذیر ملکوں میں 13 فی صد بچے زیادہ وزن یا موٹے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ سنہ 1980 میں یہ شرح 16 اور آٹھ ہوا کرتی تھی۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں یہ رجحان مشرق وسطیٰ کے ممالک اور شمالی افریقی ممالک میں نظر آتا ہے اور بطور خاص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔