ٹھہرائو، پڑائو زندگی کا حصہ ہیں لیکن زندگی چلنے اور مسلسل چلتے رہنے کا نام ہے۔ زندگی میں انسان کو بہت سی خوشیوں، کامیابیوں، کامرانیوں اور آسانیوں کے ساتھ ساتھ آزمائشوں، مشکلوں، پریشانیوںاور مسائل کابھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کسی صورت رکتی نہیں موت آنے تک چلتی رہتی ہے۔حالات کتنے ہی نا سازگار کیوں نا ہوجائیں ،انسان کو حقائق سے نظریں نہیں چرانی چاہئے ،ہم جتنی دیر حقائق کو نظر انداز کریں کرتے ہیں اُتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔
اور جتنی جلدی حقائق کو تسلیم کرکے درپیش مسائل اور مشکلات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیںاُتنا ہی ہمارے حق میں بہتر اور مسائل کے حل میں موثر ثابت ہوتاہے۔ بلی کو دیکھ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ جہاں قدرت نے انسان کی زندگی میں مشکلیں اور آزمائشیں پیدا کیں وہیں ان کو حل کرنے کے لئے وسائل، مواقع اور امکانات بھی کثرت سے عطا فرمائے ہیں۔ اگرآزمائشوں اور مشکلات کا مقابلہ حوصلے اور بردباری سے کیا جائے توانسانی زندگی میں مثبت تبدلیوں کے ساتھ ساتھ کامیابیاں حاصل ہونے کے امکانات بھی روشن ہوجاتے ہیں۔
انسان کتنی بھی کوشش کرلے آزمائشوں اور مشکلوں سے جان نہیں چھڑواسکتا لیکن اُن کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنے سے انسان مایوسی اور احساس کمتری سے بچا رہتا ہے۔ اگر ہم اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ کوئی آزمائش اور مشکل نہیں جس کاحل ناممکن ہے تو پھر مقابلہ کرناقدرآسان ہوجاتا جبکہ مشکل آنے سے پہلے ہی فیصلہ کرلیں کہ اُس کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور نا ہی کوئی مددگار ثابت ہوسکتا ہے تو سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
وقت صدا ایک سا نہیں رہتا لیکن جب کوئی فرد یا معاشرہ ناکامی اور مایوسی کے سمندروں میں غرق ہوجائے تواُس کا کامیابیوں کے ساحل تک پہنچنا ناممکن کے قریب تر چلاجاتا ہے۔ قدرت نے مسائل کے ساتھ ساتھ اُن کے حل کے لئے کائنات میں بے پناہ وسائل بھی پیدا فرمائے ہیں ضرورت اُن کو تلاشنے اور درست طریقے سے استعمال کرنے کی ہے۔ میرے خیال میں درپیش مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے ضروری مواقع اور امکانات ہمارے آس پاس ہی موجود ہوتے ہیں جب ہم اُن کو پہنچان کردرست طریقے سے استعمال نہیں کرپاتے تب ہمارے مسائل اور مشکلات پیچیدہ ہوکر وبال جان بن جاتے ہیں اوراُن کا حل تلاش کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔
Trials
آزمائشیں اور مشکلات انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ جوان آزمائشوں پر گریہ زاری میں لگے رہتے ہیں اُن کی زندگی رُکے ہوئے پانی کی مانند زہریلی ہوجاتی اور جو لوگ ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اکثر کامیاب ہوتے ہیں۔ کامیاب لوگ زندگی کو حقائق ،مسائل اور وسائل کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے لوگ زندگی میں پیش آنے والی مشکلوں اور آزمائشوں کوبھی زندگی کاحصہ تسلیم کرتے ہوئے شکوے اور شکایتوں کا ڈھیرسرپراُٹھائے پھرنے کی بجائے کامیابی کی طرف جانے والے راستے تلاشتے ہیں جن پر چل کر زندگی میں پیش آنے والی مشکلوں اور آزمائشوںکا مثبت اور دیرپا حل نکالنے میں مدد ملتی ہے۔
جو لوگ زندگی کے حقائق کو تسلیم کرتے اورآزمائشوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرلتے ہیں وہ دوسروں پرالزام دھرنے کی بجائے تمام تر توانائیاں پیش آنے والی مشکل کا حل تلاش کرنے پر خرچ کرتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ ان کی ہر کوشش اُن پر کامیابی کے دروازے کھول دے لیکن مسلسل جدوجہداور محنت سے انسان کے لئے کامیابیوں کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں۔ مثبت سوچ اور رویے جب عمل کے دھارے میںمسلسل بہتے ہیں تو مسائل اور مشکلات کے حل کے مواقع اور امکانات پیدا ہوتے ہیں لیکن جب مثبت سوچ اور رویے عمل کی لہروں میں بہنے کی بجائے ہمارے ذہن اور خیالات کے حد تک محدود رہ کر جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔
توٹھہرے ہوئے پانی کی مانند زہریلے ہوکر افراد اور معاشرے کو مایوسی اور ناکامی کے دلدل میں ڈبودیتے ہیں جس سے نکلنا اکثرمشکل ہوتا ہے۔مثبت اندازفکر اور سوچ رکھنے والے افراد اور معاشرے کبھی بھی (short cut) کا راستہ اختیار نہیں کرتے۔ مثبت سوچ انسان کو عارضی کامیابی اور ترقی کی بجائے دیر پا اور یقینی کامیابی کے راستے پرچلنے کی دعوت دیتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور short cut) (کا رجحان عام ہے ،ہمیں اَناپرستی اور حد سے زیادہ خوداعتمادی نے تبادلہ خیال یعنی بامقصد مباحثوں سے دور تر کردیا ہے۔
ہم خود کو عقل کل تصور کرتے ہیں ۔کسی بھی موضوع پر بات چیت کے دوران دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لئے اکثر ہم حقائق اور مقصد سے ہٹ کر دلائل اور وضاحات بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے جوآج تبادلہ خیال کااصل مقصد فوت ہونے کے قریب ہے۔ تبادلہ خیال کا مقصد معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ، مسائل اور مشکلات کاآپسی مشاورت سے بہتر اور دیر پا حل تلاش کرنا ، موجودہ وسائل کو صیحح جگہ اور درست وقت پر استعمال کرناہوتا ہے۔ لیکن جب ہم تبادلہ خیال کے دوران اپنی ذاتی حیثیت کو منفرد اور برتر ثابت کرنے کی کوشش میںحقائق کی پٹری سے اُتر کر بات کرتے ہیں تو نتائج مسائل کے حل کی بجائے اَناپرستی اور لاسانیت کو ہوا دینے والے نکلتے ہیں جو مباحثے ،مکالمے کی بنیادی حیثیت کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔ آج معاشرے کا ہر فرد اپنے آپ کو باشعور اور عقل مند سمجھتا اور ثابت کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن اپنے شعور اور عقل کو تبادلہ خیال کے ذریعے مزید نکھارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آپ کسی ایک بستی کے مکینوں سے فردا،فردا بات کرلیں ہر فرد اپنی صفائی اور وکالت میں اپنی مثال آپ ہوگا۔
اور اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرتا نظر آئے گا لیکن جب بستی کے گلی کوچوں پر نظر ڈالیں گے تو جا بجابگاڑ اور ایسے مسائل ملیں گے جو ہر فردکے دعوئوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ مثبت سوچ اور خیالات اگر ہمارے ذہن کے آنگن میں چُپ چاپ پڑے رہیں تو ٹھیک ٹھہرے ہوئے گندے اور بدبودارپانی کے تالاب کی مانند ہیں، جس کو جوہڑ کہا جاتا ہے۔مثبت سوچ،رویے اور اندازفکر کو تبادلہ خیال کی چھاننی میںچھان کرہی اُن کو قابل عمل بنایا جاسکتا ہے ۔ایساتب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم عدم برداشت کے رجحان کو کم کر کے ایک دوسرے کی رائے کواہمیت دیں اور تبادلہ خیا ل کی محفلوں میں غیر حقیقی دلائل کی بجائے بامقصداور حقائق پر مبنی گفتگو کے ذریعے درپیش مسائل اور مشکلات کا حل تلاش کرنے کوشش کریںگے
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com.03154174470