انتہا پسندی برداشت نہیں

Barack Obama

Barack Obama

نیویارک سے خبر آئی ہے کہ گزشتہ بدھ کو امریکی صدر مسٹر بارک اوباما نے ویسٹ پوائنٹ پر امریکی ملٹری اکیڈمی میں فوجی جوانوں سے خطاب کے دوران اپنی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کا اعلان کردیاہے اِس موقع پر امریکی صدر اوباماکا کہناتھاچونکہ اَب افغانستان میں امریکی جنگ اپنے اختتام کے قریب ہے لہذااَب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نئے محاذ مشرق وسطی اور شمالی افریقاہوں گے اُنہوں نے کہاکہ ہم نے ہر حال میں یہ تہیہ کررکھاہے کہ ہم امریکی سلامتی کے لئے فوجی کارروائی سے بھی گریزنہیں کریں گے اور کسی بھی قسم کی انتہاپسندی کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔

اگرچہ اس خطاب میں امریکی صدرمسٹربارک اوباماکے یہ تاریخ جملے بڑی اہمت کے حامل ہیں اُنہوں نے کہاکہ” امریکا اور دنیاکو اِس وقت سب سے زیادہ خطرہ عدم مرکزیت کے شکارشدت پسندوں سے ہے اور ہم دنیا سے ہر قسم کی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے تک ڈرون حملے جاری رکھیں گے”اَب دیکھنا یہ ہے کہ اباما کا یہ عزم ساری دنیا کے لئے ہے یا دنیاکی آڑمیں صرف امریکا تک ہی محدود رہے گا…؟

یاامریکا ،اقوام متحدہ اور عالمِ السلام ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں کے خلاف بھی کسی قسم کی کرروائی کا ادارہ رکھتاہے …؟ جی ہاں…!!!! آج ہندوستان کی وہ انتہاپسندہندؤ تنظیمیںجنہوں نے ہندوستان میں نمازِفجر کی اذان کی پابندی کا مطالبہ کردیاہے۔چونکہ ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں کا نمازفجر کی اذان پر پابندی کا مطالبہ بھی انتہاپسندی کے ہی ضمرے میں آتاہے یہاں اِس لئے میں اپنے کالم کے موضوع کے اعتبارسے ہندوستان کی اِن انتہاپسندہندوتنظیموں سے وابستہ ہندوؤں کا تذکرہ کرنابھی ضروری سمجھتاہوں۔

جبکہ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان ہماراپڑوسی ملک ہے اور ہم اِس سے خوشگواراندازسے تعلقا ت استوارکرنے کے خواہشمندبھی ہیں اور ہم یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ سیاسی، سرحدی، اور اقتصادی سمیت ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر کسی بھی قسم کی پابندی کی آڑ میں ہمارے تعلقات خراب ہوں توہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان ہم سے اور ہم اِس اپنے اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم رکھیں مگرجب ہندوستان کے انتہاپسندہندومسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں گے تو اُن کے ایسے ہر اقدام کے خلاف بحیثیت مسلمان آوازبلندکرنااور بھر پورمذمت کرناجہاں اُمتِ مسلمہ پر فرض ہے تو وہیں ہم پاکستانی مسلمان بھی کسی معاملے میںشاید پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آج جہاں ہندوستان میں انتہاپسندہندؤں کی جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت کو آئے ابھی چندگھنٹے اور دوچار دن ہی گزرے ہیں کہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تنگ نظر انتہاپسندہندوؤں کی انگنت تنظیموں نے ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور رسم رواج کے خلاف شدت سے فتنے پیداکرنے کے لئے شروع کردیئے ہیں اور ہندوستان کے نومنتخب ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیاہے اِن اِنتہاپسندہندوتنظیموں کا عالم اسلام کے مسلمانوں کوٹھیس پہنچانے والا پہلا مطالبہ یہ ہے۔۔

Narendra Modi

Narendra Modi

نو منتخب ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی مساجد سے صبح ہونے والی اذانِ فجر پر پابندی لگائیںخبرہے کہ ہندوستان کے شہرمینگور میں انگنت ہندوانتہاپسندتنظیم راشٹر یاہندوایندولن، جناجاگرونی، بھارت کرنتی سینا اور اِن جیسی دیگرتشدد پسندہندوتنظیموں کی جانب سے ڈپٹی کمشنرآفس کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے دوران مطالبہ کی گیاکہ ہندوستان بھرمیں نمازفجر کی اذان پر پابندی گائی جائے”ہندوستانی انتہا پسند ہندؤ تنظیموں کا یہ مطالبہ ابھی تو شروعات ہے۔

اگر اِس مطالبے کو انتہاپسندتنظیموں سے تعلق رکھنے والے نومنتخب ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی مان لیتے ہیں اور اپنے احکامات سے ہندوستان بھر میں نمازِ فجر کی اذان پر پابندی کا اعلان کردیتے ہیں تو کیا نریندرمودی کے اِس اقدام کے خلاف اُمتِ مسلمہ، اوراقوام متحدہ سمیت امریکا بھی کسی قسم کی سخت مذمت کرے گایا اِسے ہندوستان کے انتہاپسند ہندوؤں کا اندرونی معاملہ قراردے کا خاموش ہوجائے گا..؟

اِس موقع پر اِنسانی حقوق کے علمبردار بننے والے امریکاسمیت دیگر چیمپینوں کو یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ آج اگر دنیا کے کسی مسلم ملک میں کسی اقلیت کے مذہبی عقائد پر پابندی لگائی جانے کا کوئی مطالبہ کیا جاتا تو ساری عالمی برادری اُس مسلم مُلک کے اِس اقدام کو اِنسانی حقوق کی کھلی خلاف وزری قراردے کر اِسے انتہاپسند اور دہشت گردمُلک کہہ کر اِس کے خلاف محاذ جنگ کھول لیتی مگر آج جب ہندوستان کے انتہاپسندہندؤہندوستان میں نمازِفجرکی اذان پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں تو ایسے میں عالمِ اسلام سمیت امریکااور اقوام متحدہ ہندوستان کے خلاف اپنے کسی سخت فیصلے سے پہلے بغلیں جھانک رہے ہیں۔

یہاں افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں کی جانب سے جیسے ہی مسلمانوں کی نمازفجر کی اذان پر پابندی کے مطالبے کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی تو کم ازکم سعودی عرب ، ایران، پاکستان ، لیبیا، ترکی ،مراکش اور دیگرمسلم ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے فوراََ ہی ہندوستان سے ہر قسم کے تعلقات کے منقطع کرنے کا اعلان بھی کردیاجاتا…او ر اپنے ممالک سے ہندوستان کے ہندوؤں کو ڈی پورٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیناچاہیئے تھامگر افسوس ہے کہ شاید مصالحت پسندی کے لبادھے اور امریکی دباؤ کے زیراثررہنے والے ہمارے مسلم ممالک کے حکمرانوں میں ہندوستان کے خلاف اِس حساس معاملے سمیت کسی بھی ہندوستانی اقدام پر کسی بھی قسم کا سخت ایکشن لینے کی ہمت ہی نہیں ہے کیوں کہ مسلم حکمران یہ سمجھتے ہیں چونکہ ہندوستان امریکا کا یار ہے۔

اگر اِنہوںنے ہندوستان کے ایسے کسی اقدام کے خلاف کوئی سخت ایکش لیاتو امریکا ناراض ہوجائے گااور اگر امریکا ناراض ہوگیاتوپھر اِن کی حکمرانی کی دل دلیہ خطرے میں پڑسکتی ہے بہر حال ..! ابھی کچھ بھی ہے مگر اُمتِ مسلمہ کے لئے ایمان اور دین سے محبت کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ہر حال میں یکدل اور یک جان اور متحدہ ہوکر ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں اور ہندوستانی نومنتخب وزیراعظم کو پہلااور آخری سبق سکھانے کے لئے اِس مطالبے کے خلاف سخت ایکش لینے کی اشدضرورت ہے ایسے میں عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آج اگر ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں اور ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔

تو ہندوستان کے انتہاپسندہندواپنے یہاں مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لیںگے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی برماکے مسلمانوں کی طرح تنگ کردیں گے توکیا جب مسلم اُمہ کو ہوش آئے گاجب پانی سر سے اُونچااور بہت اُونچاگزرچکاہوگا..؟جب ہم ہندوستان کے انتہاپسندہندوؤں کو نکیل ڈالنے کے لئے عالمی سطح پر احتجاجوں اور مظاہروں سے دباؤ بڑھائیں گے…؟؟تب کیا فائدہ ہوگا..؟اُمتِ مسلمہ یہ بھی ذراسوچ لے..؟؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com