طلبا و طالبات کے درمیان امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے کی ہوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امتحان پانچویں درجہ کا ہو یا دسویں بورڈ کا، انٹرمیڈیٹ کا ہو یا گریجویشن کا، سائنس کا ہو یا آرٹس کا، آئی آئی ٹی کا ہو یا ایم بی اے کا… طلبا و طالبات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ انسان نے زندگی کو ایک دوڑ ہی سمجھ رکھا ہے جس میں اگر کوئی تیز نہیں بھاگے گا تو کوئی دوسرا اسے کچل کر آگے بڑھ جائے گا۔ اس دوڑ میں طلبا و طالبات بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے ہیں اس لیے سبھی اپنے ہم جماعت کو ‘کچل’ کر آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، چاہے اس کے لیے ‘منا بھائی’ والا فارمولہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔
سب سے زیادہ حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب سوالنامہ امتحان شروع ہونے سے قبل ہی طلبا کو دستیاب ہو جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں باغپت میں دیکھنے کو ملی۔ یہاں آٹھویں درجہ کا سوالنامہ سر عام دکانوں پر فروخت کیے جانے کی خبریں تقریباً سبھی اہم اخبارات کی سرخیاں بن چکی ہیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ یہ سوالنامے محض 50 روپے میں فروخت ہو رہے تھے۔ کیا ہمارے ملک کا تعلیمی معیار اتنا گر گیا ہے؟ کیا اس طرح سے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو رہا ہے؟ کیا اخلاقی قدریں طلبا کو اس طرح کے عمل میں شامل ہونے کی اجازت دیتی ہیں؟ افسوس کا مقام ہے طلبا و طالبات کے لیے بھی اور اساتذہ کے لیے بھی۔ لیکن ان دونوں سے زیادہ افسوس تعلیمی نظام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی ‘تعلیم و تعلم’ حاشیہ پر نظر آ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سوالنامہ ‘آئوٹ’ ہونے کی خبریں ملتی تھیں تو لوگ حیرت میں پڑ جاتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ لیکن آج تو یہ روز مرہ کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اخبار و رسائل میں کبھی اس کے متعلق خبریں شائع ہوتی ہیں تو لوگ بس ایک نظر دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں بھی بدعنوانی نے اپنی جڑیں جما لی ہیں۔ اگر اسکول یا کالج کا پرنسپل ہی سوالنامہ ‘آئوٹ’ کرے تو پھر ہم اسے ‘بدعنوانی کا عروج’ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ 17 نومبر 2011 میں تو سی بی ایس ای کا ایک سوالنامہ آئوٹ کرنے کے معاملے میں پورٹ بلیئر کی خصوصی عدالت نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جی ایس ایس ایس اسکول کے پرنسپل کرشناما راجو سمیت عبدالرشید، ایم جے وجین اور عبدالسلام کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ سبھی بارہویں میں تعلیم حاصل کر رہے اپنے اسکول کے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے خواہاں تھے اور اسی کے کے پیش نظر سی بی ایس ای کا سوالنامہ آئوٹ کیا تھا۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ بچوں کا ‘مستقبل’ اس طرح سے روشن ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی ذی شعور اور دانشمند شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ مذکورہ معاملے میں تو پرنسپل کی حرکت سب کے سامنے عیاں ہو گئی اور اسے سزا بھی مل گئی لیکن موجودہ صورت حال میں ‘بدعنوان پرنسپل’ یا ‘بدعنوان اساتذہ’ کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔
حد تو یہ ہے کہ ‘ٹی ای ٹی’ (اساتذہ اہلیت امتحان) کے سوالنامے بھی آئوٹ ہوتے رہے ہیں اور دھڑلے سے آئوٹ ہوتے ہیں۔ فروری 2012 میں بہار میں ‘ایس ٹی ای ٹی’ کا سوالنامہ بازار میں 2000 روپے سے لے کر 200 روپے تک میں فروخت ہوا اور اس سلسلے میں 13 لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔ یہاں توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ جب سوالنامہ آئوٹ ہونے کا معاملہ منظر عام پر آ جاتا ہے تو ‘مجرم’ کی گرفتاری بھی عمل میں آتی ہے، لیکن اکثر و بیشتر اندرونی ذرائع سے سوالنامہ آئوٹ ہونے کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں جس کی خبر یا تو پولس انتظامیہ کو ہوتی ہی نہیں ہے یا پھر ثبوت کی عدم دستیابی کے سبب وہ کوئی کارروائی کرنے سے پرہیز کرتی ہے۔
Education
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کمزور امتحان دہندگان تو آئوٹ ہو چکے سوالنامہ کو حاصل کرنے میں پیش پیش رہتے ہی ہیں، باصلاحیت امتحان دہندگان بھی خود کو اس ‘غلط کاری’ میں شامل ہونے سے نہیں روک پاتے ہیں۔ دراصل اس معاملے میں کافی عمل دخل ‘اخلاقی تربیت’ کا بھی ہے۔ سرپرستوں کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے زیادہ نمبر لائیں، اس لیے اکثر سرپرست ذاتی طور پر بھی اپنے بچوں کو اس سے نہیں روکتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں چل رہے اسکولوں کا نظام تعلیم اس قدر زوال پذیر ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ہم اساتذہ کا رونا روئیں یا بنیادی سہولتوں کا۔ زیادہ پرانی خبر نہیں ہے جب اتر پردیش اساتذہ اہلیت امتحان (یو پی ٹی ای ٹی) 2013-14 کا نتیجہ آیا ہے جس میں 778807 میں سے محض 188726 امتحان دہندگان کامیاب ہوئے، یعنی صرف 24.23 فیصد۔ یہ نتیجہ ہمارے تعلیمی معیار کی حالت زار ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ضرور ہے لیکن اس کی بنیاد تبھی مضبوط ہوگی جب ہم تعلیمی نظام میں مثبت تبدیلیاں کرنے کی ہمت کریں گے۔ کچھ ایسی تبدیلیاں جو نہ صرف طلبا و طالبات کے سوچنے کا نظریہ بدل دے بلکہ اساتذہ کو بھی زمانے سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کے لیے مجبور کر دے۔ یہ تبدیلیاں کس طرح کی ہوں گی۔
اس کے لیے الگ سے مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال، طلبا و طالبات کو خود بھی اپنے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نام نہاد ‘روشن مستقبل’ کے بجائے حقیقی ‘روشن مستقبل’ کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یہاں طلبا و طالبات کے لیے فلم ‘تھری ایڈیٹس’ کا ایک مقبول ڈائیلاگ پیش کرنا بہتر ہوگا کہ ”کامیاب ہونے کے لیے نہیں قابل ہونے کے لیے پڑھو۔ Success کے پیچھے مت بھاگو Excellence کا پیچھا کرو Success جھَک مار کے تمھارے پیچھے آئے گی۔
Knowledge
جی ہاں! طلبا کو کامیاب ہونے کے لیے نمبر حاصل کرنے کی دوڑ سے بچنا ہوگا اور خود کو قابل بنانے کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہو گا۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پوشیدہ خوبیوں پر توجہ دیں۔ جب خوبیاں نکھر کر باہر آئیں گی تو خامیاں خود بہ خود ناپید ہو جائیں گی۔ اس کے بعد جو شخصیت سامنے آئے گی وہ قابل ہی نہیں عظیم بھی ہو گی یا پھر عظیم الشان۔