اسلام آباد (جیوڈیسک) اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے 35 لاپتا افراد سے متعلق خفیہ دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون کے مطابق کسی بھی کیس کی تفتیش 14دن ہوتی ہے، لاپتہ افراد کیس کی تفتیش 4 سال سے جاری ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مالاکنڈ حراستی مرکز کے 35 لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگراٹارنی جنرل کی جمع کرائی گئی خفیہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کو عدالت خالی بھی کرانا پڑی تو ایسا کریں گے۔
سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف چلنے والی مہم پر عدالت کی معاونت کی جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ مہم آتش گیر ہے ، ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی عدلیہ کے خلاف مہم جاری ہے، پتہ کریں کون لوگ یہ مہم چلا رہے ہیں ،ڈی جی آئی بی اور وفاقی سیکریٹری داخلہ یا تو غافل ہیں یا نا اہل۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر کہا گیا کہ مجھے افواج پاکستان سے بغض اور عناد ہے،اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ اسلام آباد کا ریڈ زون کتنا محفوظ ہے، اس کے بعد طے کیا جائے گا۔
کہ ملک کے دیگر علاقے کتنے محفوظ ہیں۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کا حال یہ ہے کہ لاعلم غافلون، شاید میرے ساتھیوں کو تعجب نہیں ہوا مگر مجھے بہت تعجب ہوا ہے کہ ریڈ زون میں بینرز لگا دیے گئے،ہم شکر گزار ہیں کہ بینر لگانے والے فرزندان اسلام نے ریڈ زون میں بم دھماکے نہیں کر دیے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ مختلف زاویوں سے تفتیش کر رہے ہیں کہ عدلیہ مخالف بینرز کس نے لگائے،گزارش ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ادروں کے درمیان کوئی تنازع ہے۔ اس کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔