یوم تکبیر یوم التوبہ

India

India

صرف ہندوستان ہی نہیں، ہندوستان کے ہم خیال ممالک بھی پھولے نہیں سمارہے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اب پاکستان کو کرہ ارض سے مٹانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہندوستانی فوجی افسران خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہے تھے کیونکہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران لاہور میں شراب پینے کا ان کے بڑوں کا جو خواب چکنا چور ہوگیا تھا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد وہ اپنے ان ادھورے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ان کے غرور کا عالم یہ تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں لاہور میں شراب کے ساتھ کرشمہ کپور اور مادھوری کی خوبصورت اور دل لبھانے والی ڈانس سے بھی خود کو محظوظ ہوتے دیکھ رہے تھے۔

دوسری طرف اسلامی دنیا پر سوگ کی سی کفیت طاری تھیَ کیونکہ تمام تر ناکامیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود بھی وہ پاکستان کو اپنا رہبر و رہنماء مانتے تھے۔ اس ساری صورتحال میں خود پاکستانیوں کی کیفیت بڑی دلچسپ تھیں۔ گوکہ انہیں کسی نے باقاعدہ طور پر تو نہیں کہا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے لیکن 1974 میں انڈیا کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں ذولفقار علی بھٹو نے جو تاریخی جملہ کہ:” ہم ایٹم بم بناکر رہیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے،، ادا کیا قوم نے اس پر ایسا یقین کر لیا تھا کہ 1998 میں ہر پاکستانی کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود ہے اور پاکستان انڈیا کو بھر پور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن ایک فکر جو قوم کو بہرحال لاحق تھی۔ وہ یہ کہ امریکہ اس پورے مسئلے میں مکمل طور پر انوالو ہوچکا تھا اور وہ بہر صورت پاکستان کو جوابی ردعمل سے روکنا چاہ رہے تھے۔ اور اس کے بدلے ہر قسم کے عزت و تکریم دینے کے لیے بھی تیار تھا۔ پاکستان چونکہ 1971 میں امریکی دوستی کا مزہ چھک چکا تھا اس لیے 1998میں بجا طور پر اہل وطن اس فکر میں مبتلاء تھے کہ کہیں پاکستان ایک بار پھر امریکی وعدوں پر اعتبار نہ کر بیٹھے۔ امریکہ نے جب دیکھا کہ کوئی لالچ کام نہیں کررہا تو وہ دھمکیوں پر اتر آیا اور کہا کہ اگر پاکستان نے انڈین ایٹمی دھماکوں کا ردعمل دیا تو اسے معاشی پابندیوں کے ساتھ دنیا میں تنہائی کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سخت دباء محسوس کررہے تھے اور وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے۔

ایک طرف وزیر اعظم اس کیفیت سے دوچار تھے تو دوسری طرف قوم کی طرف سے اس پر کچھ کر دکھانے کے لیے دباؤ بڑھتا رہا۔ جب ہر طرف سے یہ صدائیں آنی شروع ہوئی کہ ہم گھاس کھانے کو بھی تیار ہے لیکن بھارتی چوہدراہٹ کا بھر پور جواب دیا جائے ۔ تو میاں صاحب کو بھی ایک نیا حوصلہ ملا اور اس نے کچھ کر دکھانے کا عزم کیا۔

یہ 28مئی 1998 کی بات ہے کہ جب عصر کے وقت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی ٹیم کے ساتھ، افواج پاکستان کے افسران اور ان کے دبنگ جوان، انجینئیرز اور دیگر عملہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی میں موجود تھے اور ایک اہم مشن کو سر کرنے والے تھے۔ موقع پر موجود لوگوں نے وہی کیا جو مسلمان صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی پہلے بارگاہ رب العزت وحدہ لاشریک میں دست بدعا ہوئے۔ دعا کے فوری بعد فضاء اﷲ اکبر کے رعب دار آواز سے گونج اٹھی، اور اس کے ساتھ ہی چاغی کا یہ مضبوط پہاڑ لرزنے لگا۔

Allah

Allah

موقع پر موجود لوگوں اور آفیشلز نے پہاڑ کا رنگ بدلتے دیکھا تو انہوں نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا کر اﷲ تعالٰی کا شکر ادا کیا کیونکہ پاکستان اب دنیا کا ساتواں جبکہ عالم اسلام کا پہلا ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ اس عظیم کارنامے کی خبر جب قوم کو ہوئی تو ان کو تو خوش ہونا ہی تھا لیکن ذرا نگاہیں دوسری طرف اٹھائیں کہ دنیا نے اس پر کس طرح کا ردعمل دیا۔

دنیا میں ہمیں دو طرح کے ردعمل دیکھنے کو ملے۔ پہلا ردعمل جو ہم نے اسلامی دنیا اور پاکستان دوست ممالک کا دیکھا تو ہمیں فلسطین کے لوگ سجدہ شکر ادا کرتے دکھائی دیے تو جکارتہ کی گلیوں میں لوگوں کو مٹھائیاں بانٹتے اور جشن مناتے دیکھا۔ اور یہ صورتحال پورے عالم اسلام کی تھی۔ دوسرا ردعمل ہم نے اہل کفر کا دیکھا کہ ان کی آنکھیں پھٹے کے پھٹے ہی رہ گئے۔ کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہمیشہ سے داخلی انتشار کا شکار ملک بھی کبھی اس قابل بن جائے گا کہ وہ ہندوستان کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اس سے زیادہ قوت والے چھہ دھماکے کردے گا۔

خود انڈیا اور اس کے ہم نوا اسرائیل کے تو اوسان ہی خطاء ہوگئے تھے کہ اخر یہ ہو کیا گیا ہے۔ اس دو طرفہ ردعمل سے جو بات ثابت ہوئی وہ یہ کہ پاکستان صرف جغرافیائی حدود میں قید زمین کے کسی ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ پاکستان ایک نظرئیے کا نام ہے۔ اس نظریے کا نام جو کفر اور اسلام کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ یعنی لاالہٰ الااﷲ۔

بہر حال جب عالم کفر نے دیکھا کہ پاکستان کو تو پورا عالم اسلام اپنا حقیقی ترجمان اور جائے پناہ تصور کرتی ہے تو انہوں دو کام کیے۔ پہلا کام یہ ہمارے اوپر معاشی پابندیاں لگا کر ہمیں اپنے قدموں میں بٹھانے کی کوشش کی۔ دوسرا کام جو انہوں فوری تو نہیں کیا لیکن اس کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی، وہ یہ کہ ہمیں ہمارے اقدار سے دور لے جایا جائے اور ہمیں غیروں کے رسم و رواج کا دلدادہ بناکر دو قومی نظریے سے دور کرسکے تاکہ پاکستان عالم اسلام کے ترجمان اور ہمنوا کا حیثیت کھوکر اغیار کے لیے تر نوالہ بن جائے۔

جب امریکہ نے پاکستان کے اوپر پابندیاں لگاکر بظاہر ہمیں مفلوج کردیا تو اس وقت سعودی عرب پورے عزم اور اعتماد کے ساتھ ہمارے شانہ بشانہ کھڑا ہوا اور ہمارے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول کر رکھ دیے۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں کے بعد خود پر پڑنے والے عالمی دباؤ کے آگے ڈٹ گیا جس کے نتیجے میں عالمی طاقتیں ہم سے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرانے میں ناکام رہی۔ کامیاب ایٹمی دھماکے کرانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام بالخصوص حکمران طبقہ یہ عہد کرتا کہ اتنے بڑے انعام کے بعد ہم کبھی بھی اﷲ پاک کی نافرمانی نہیں کریں گے اور خود کو حقیقی معنوں میں اسلام کے سپاہی اور مظلوم مسلمانوں کے مسیحا بنائیںگے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور حکمران طبقہ عوام کی بھلائی کرنے کے بجائے ذاتی مفادات میں الجھ کر رہ گیا۔

نتیجتاً اﷲ پاک نے پرویز مشرف کی شکل میں ایک عذاب ہم پر مسلط کیا۔ پرویز مشرف جب اس قوم پر مسلط ہوئے تو اس کے کچھ عرصے بعد امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا۔ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے اس پاک وطن کے عزت و ناموس کو خاک میں ملا کر رکھدیا اور ایک ایٹمی ملک یہود و ہنود کا غلام بن کر رہ گیا۔ ایک مسلمان پڑوسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان کی فضائیں، سمندر اور خشکی امریکہ کے حوالے کرنا، عافیہ صدیقی سیمت سینکڑوں لوگوں کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کرنا، برادر اسلامی ملک کے سفیر کو بے توقیر کرکے صلیب کے پجاریوں کے قدموں میں ڈالنا اور باجوڑ کے مدرسے پر امریکی حملے کو اپنا ”کارنامہ،، قرار دینا تو پرویزی دور کی سیاہ کارناموں کی صرف ایک جھلک ہے۔

ورنہ اس ظالم نے تو وہ کام بھی کردیے جو کسی ایٹمی ملک کے تو کیا کسی کمزور ملک کے بھی شایان شان نہیں تھے۔ بہر حال پرویز مشرف سے تو اﷲ پاک نے جان چھڑادی لیکن آفسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اس سیاہ دور کی بیشتر پالیسیاں اب بھی چل رہی ہے۔ حالانکہ اہل وطن نے زرداری حکومت کو اس لیے مسترد کرکے میاں صاحب کو زمام اقتدار تھما دیا تھا کہ زردای حکومت پرویز مشرف دور کی پالیسیوں سے جان چھڑانے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر سجانے والے میاں نواز شریف صاحب بھی پرویز اور زرداری دور کی پالیسیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ آج میاں صاحب بڑے عرصے بعد اقتدار میں آکر یوم تکبیر تو منارہے ہے لیکن یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ آج کے میاں صاحب میں وہ جذبہ اور امریکہ و اس کے ایجنٹوں کے سامنے ڈٹ جانے کی وہ ہمت نہیں جو 1998 والے میاں صاحب کے اندر تھی۔ آج ہم یوم تکبیر تو منارہے ہیں لیکن ہماری حکومت تکبیر کے معنی و مفہوم کو بھلاکر اور یوم تکبیر کے تقاضوں کو فراموش کرچکی ہے۔

Youm-e-Takbir

Youm-e-Takbir

اور اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ایک طرف حکومت یوم تکبیر بھی منارہی ہے تو ساتھ میں دو اداروں کے درمیان جاری تنازعے میں اس ادارے کے ساتھ کھڑے نظر آتے جس پر ملکی سلامتی کے حوالے سے کئی الزامات لگ چکے ہیں اور جن کے چیف کو پاکستان کے ایک مقبول سیاسی جماعت کے قائد مناظرے کا چیلنچ بھی دے چکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ یوم تکبیر منانے سے چند دن پہلے حکومت شمالی وزیرستان میں بڑی فوجی کار راوئی کا آغاز کرچکی ہے، جو کہ شروع دن سے امریکی مطالبہ بھی تھا اور ان کی خواہش بھی۔ ایسے میں یوم تکبیر منانا ایک رسم تو ہوسکتا ہے لیکن اﷲ کی عزمت و وقار کا اقرار اور ایٹمی قوت بن جانے پر اس کا شکر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ شکر اور کفر کبھی ایک ہوسکے ہیں اور نا ہو سکیں گے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے یوم تکبیر کے تقاضوں کو سمجھے اور اگر سمجھ آجائے تو پھر آج کے اس یوم تکبیر کو یوم التوبہ کے طور پر مناکر اپنی پالیسیوں اور کردار پر نظر ثانی کیجیے۔ وما علینا الالبلاغ۔

تحریر: سعیداﷲ سعید
saeedullah191@yahoo.com