پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ پچاس منٹ طویل ملاقات ہو گئی ہے۔ ملاقات میں کشمیر ، سرکریک جیسے بنیادی مسائل پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ۔بھارتی وزیراعظم صرف دہشتگردی اور ممبئی حملوں کا رونا ہی روتے رہے۔ نئی دہلی کے حیدرآباد ہائوس میں ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف کے پولیٹیکل سیکرٹری آصف کرمانی، طارق فاطمی، سرتاج عزیز اور بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط سمیت بھارتی حکام بھی موجود تھے۔
بھارتی وزیراعظم نے پاکستان میں مبینہ طور پر ممبئی حملوں میں ملوث گرفتار ا فرادکے خلاف ہونے والے ٹرائل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ملاقات میں سازگار ماحول بنانے اورپاک بھارت سیکریٹری داخلہ کی جلد ملاقات کرانے پر بھی اتفاق ہوا۔ ملاقات کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کو تصادم کی راہ چھوڑ کر تعاون کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو شکوک و شبہات ختم کرکے قریب آنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم پاکستان ملاقات میں اور اس کے بعد بھی امن کی بات کرتے نظر آئے لیکن بھارتی وزیراعظم نے اپنے مہمان اور پہلی ملاقات کا بھی لحاظ نہ کیا اور چارج شیٹ بھی تھما دی۔ وزیراعظم پاکستان کو نہ صرف پانچ مطالبات کئے بلکہ ممبئی حملوں کے ذمہ داران کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گرد حملوں کو روکے، ممبئی ٹرائل کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
حکومت پاکستان ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے، ممبئی حملوں میں ملوث ملزموں کے درمیان ہوئی گفتگو کے وائس سیمپلز مہیا کئے جائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے خطے کی سطح پر تعاون کرے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو انتہائی خوشگوار قرار دیا اور کہا کہ ملاقات تعمیری ماحول میں ہوئی ۔ پاکستان اور جنوبی ایشیاء میں خوشحالی کیلئے امن کا قیام ناگزیر ہے۔ دونوں ملکوں کو ماضی کی رنجشیں بھولنا ہونگی۔ تصادم نہیں تعاون سے آگے بڑھنا ہوگا۔ملاقات کے بعد بھارت کی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے اپنی پریس کانفرنس میں امن کی آشا کا پردہ چاک کردیا اور پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔سجاتا سنگھ نے کہا کہ مودی نے ملاقات میں دہشت گردی سے متعلق تحفظات پر زور دیا۔ مودی نے نواز شریف سے ممبئی حملوں کا معاملہ اٹھایا اور اس معاملے میں بھارت کے خدشات سے آگاہ کیا اور ممبئی حملہ کیس میں پاکستان کا تعاون مانگا۔
مسئلہ کشمیر پر بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کا ذکر کرتے ہوئے سجاتا سنگھ کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر پر بھارت کا موقف واضع ہے جسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان اپنی سر زمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان دہشتگردی کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے اور اپنے وعدوں پر عمل درآمد کروائے۔ پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نوازشریف کے دورے کا مقصد مسئلہ کشمیر پر مذاکرات نہیں تھا۔ ملاقات میں ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس پر بھی بات چیت ہوئی۔ ممبئی حملہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہوا۔
Pakistan
وزرائے اعظم کی ہونے والی ملاقات میں بھارتی قیادت نے ممبئی حملہ کے حوالہ سے نہ صرف بات کی گئی بلکہ بھارت نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ابھی تک پاکستان کو ممبئی حملوں کے حوالہ سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیئے۔ بھارت نے ممبئی حملہ اور حافظ محمد سعید کے حوالے سے جتنے بھی ثبوت پیش کئے ہیں،پاکستانی عدلیہ اسے رد کر چکی ہے۔بھارت نے اجمل قصاب کو بھی پھانسی دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔ جب پاکستان سے جوڈیشل کمیشن بھارت گیا تو اسے اجمل قصاب تک رسائی ہی نہیں دی گئی۔ جن افراد نے اجمل قصاب سے تفتیش کی تھی کمیشن کو ان سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔بھارت کی وزارتِ داخلہ کے سابق انڈر سیکریٹری آر وی ایس منی کے مطابق پارلیمنٹ اور ممبئی پر حملے خود حکومت نے کرائے تھے۔
اور ایسا کرنے کا بنیادی مقصد انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قوانین کو مزید سخت کرنا تھا۔ عدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں انڈر سیکرٹری کا کہنا تھا کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی مشترکہ ٹیم کے رکن ستیش ورما نے انہیں بتایا تھا کہ2001میںپارلیمنٹ ہاؤس اور 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے بھارتی حکومت کی سازش کا نتیجہ تھے۔پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور نہ ہی اس میں تصفیہ طلب امور پر بات چیت کی گئی۔ بھارت کو ممبئی میں ہونے والا حملہ تو یاد ہے لیکن اسے مشرقی پاکستان میں کی ہوئی جارحیت یاد نہیں رہتی ۔ بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ بھارت نے پاکستان کے پانی پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا ہوا ہے۔
جب بارشوں کا موسم ہوتا ہے تو پاکستانی دریائوں میں پانی چھوڑ کر یہاں سیلاب کی صورت حال پیدا کر کے یہاں کی فصلوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر، سیاچین اور سرکریک پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کشمیر یوں کے استصواب رائے کے حق کو تسلیم بھی نہیں کرتا۔ پاکستان کی سیاسی ،مذہبی اورعسکری قیادت نے وزیراعظم پاکستان کے دورہ بھارت کے حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر قیادت نے بھارتی رویئے پر افسو س کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب کو مودی کے ساتھ بلوچستان اور کشمیر کا معاملہ اٹھانا چاہیے تھا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا بھارت جانے کا فیصلہ اچھا تھا ، یہ فیصلہ سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہئے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مطابق وزیراعظم نوازشریف بھارت میں امن کی آشا کی نہیں پاکستان کی نمائندگی کریں۔ مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں مگر یہ بامقصد ہونے چاہئیں۔مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کو ممبئی حملوں کے جواب میں بلوچستان اور سمجھوتہ ایکسپریس کی بات کرنا چاہئے تھی۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت ایک واقعہ کی آڑ لے کر مذاکرات منسوخ کر دیتا ہے۔ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تصفیہ طلب تنازعات حل کیے بغیر دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوسکیں گے۔امیر جماعت الدعوة پاکستان حافظ محمد سعید نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دورہ بھارت مبں ہاتھ ملائے گئے، مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، سب کچھ ہوا لیکن کشمیر کا ذکر نہیں ہوا۔ جب کشمیر کا ذکر ہو گا تب بھارت کا انداز بدل جائے گا۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کو بھارتی حکمرانوں سے اپنی بات چیت میں مسئلہ کشمیر پر واضح اور دوٹوک مؤقف اپنانا چاہئے تھا۔
بھارتی وزیراعظم نے پاکستان پر الزامات کی ایک فہرست میاں نواز شریف کو پکڑا دی۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل نے کہا کہ نریندر مودی نے نواز شریف کو بھارت بلا کر خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں، حالات پاکستان کے حق میں جا رہے ہیں۔ایئر مارشل (ر) شہزاد چودہری نے کہا کہ منموہن اور مودی میں کوئی فرق نہیں۔ بھارت فاٹا اور بلوچستان میں دہشتگردی کرتا رہے گا۔ سابق سفیر ظفر ہلالی نے کہا کہ ملاقات میں بریک تھرو نہیں، بریک ڈائون ہوا ہے۔ اس ملاقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بھارت کشمیر، پانی اور سیاچین سمیت کسی بھی مسئلے کو حل نہیںکرنا چاہتا۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے اسی موقف پر قائم رہیںجس کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ میں کیا تھا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیں اور کشمیریوں کی جدوجہد کی اخلاقی و سیاسی حمایت کریں۔