حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں علم سے پہلے کا زمانہ جہا لت کا دور کہلاتا ہے۔ اہل علم و دانش اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سیاست اور شریعیت میں قدرے مماثلت ہے محض موجودہ ادوار میں اس کو مخالف استطلاح میں بیان کیا جانے لگا ہے جس میں حقیقت یہ بھی شامل ہے کہ عام اور خواص سیاستدانوں کے طور پہچانے اور جانے جاتے ہیں۔
ہر انسان اپنے پیشہ کو اختیار کیے رہے تو وہ کامیابی جلد از جلد سمیٹ سکتا ہے لیکن اپنی صلاحیتوں اور استطاعت سے مبراء کام منفی اثرات ضرور مہیا کرتا ہے گذشتہ روز بانی تحریک انصاف کا کہنا کہ 20 نومبر تک ڈرون حملے نہ رکے تو خیبر پختونخواہ میں نیٹو سپلائی روک دی جائے گی موجودہ سیاست کے زاویے سے درست ہو سکتا ہے لیکن عقل سے ماورا اور جذباتیت پر مبنی فیصلہ ہے عمران خان ملک کے واحد لیڈر ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کی اجازت کے بغیر کوئی پارٹی عہدیدار یا ممبر کوئی بات نہیں کر سکتا ہے۔
وہ درست ہو یا غلط کسی کو انتی جرات حاصل نہیں کے خان صاحب کے سامنے بو لنے کی جسارت بھی کر سکے وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا اور افلاطون کا جانشین سمجھنے لگے ہیں بعض اوقات انکی باتوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حواس باختہ ہو چکے ہیں جس کی تائید طالبان بھی کر چکے ہیں عمران خان مشاورت کے عمل سے واقفیت رکھتے تو کبھی بھی جذباتی فیصلوں پر بلا وجہ سٹینڈ نہ لیتے جس کی بدولت ان کی پذیرائی میں نہ صرف فرق پڑ رہا ہے بلکہ انہیں سیاستدان سے زیادہ کرکٹر ہی سمجھا جا نے لگا ہے۔
عمران خان سب کچھ جا ننے کے باوجود بھی نہ جانے کیوں اتنی بے خبری اور لا علمی پر مبنی فیصلوں پر ڈٹنے کی سعی بار بار دوہرانے لگے ہیں دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کا بیان کہ امریکیوں کا ساتھ دینے والا انہیں خفیہ سپورٹ کرنے والا اور انکی پالیسیز کو آگے لیکر چلنے والا بھی انہی جیسا ہے اور اگر امریکی فو ج مرتد ہے تو انکا ساتھ دینے والے بھی اسی دا ئرہ کا ر میں آتے ہیں یعنی دبے لفظوں یہ بات مسلح افواج پاکستان کی طرف منصوب کی گئی ہے جس پر فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے شدید ردعمل کا اظہا ر کیا ہے جو جا ئز اور بلا شبہ حق بجا نب ہے۔
اس معاملہ پر اسقدر الیکٹرانک میڈیا کا واویلا اور بحث و مبا حثہ ایک محض ڈرا مہ یا دستا ویزی فلم کے مترادف ہے کیونکہ یہ کوئی بھی نئی یا انوکھی با ت نہیں ہے دنیامیں کوئی بھی اسلام کے نام پر چلنے والی جنگ میں جما عت اسلامی پو ری طرح حصہ دار ہے وہ جنگ چا ہے حق کیلیے ہو یا محض اپنے مفادات اور عزائم کی تکمیل کی خا طر جما عت اسلامی کا شروع سے موقف تحریک طالبان پاکستان کے حق میںرہا ہے اور وہ پختگی سے اس پر قائم ہے ۔یہی موقف بیت اللہ محسود کا تھا ،یہی مو قف حکیم اللہ محسود کا تھا، یہی موقف امیر تحریک طا لبان پاکستان ملا فضل اللہ کا ہے۔
یہی موقف مولانا عصمت اللہ معاویہ کا ہے، یہی موقف نائب امیر تحریک طالبان پاکستان مولانا خالد حقا نی کا ہے، یہی موقف تحریک طالبان کے مجا ہد مولانا محمد عاصم عمر کا ہے، یہی مو قف سابق تر جمان تحریک طالبان پاکستان احسان اللہ احسان کا ہے یہی مو قف موجودہ تر جمان پاکستان تحریک طا لبان شاہد اللہ شاہد کا ہے، یہی مو قف عصمت اللہ شاہین کا ہے، یہی مو قف مجمو عی طو ر پر تحریک طا لبان پاکستان کا ہے کہ پاکستانی فو ج اور آئی ایس آئی مرتد ہے کیو نکہ یہ امریکی فوج کا ساتھ دیتی ہے آج اسی مو قف کو منور حسن نے کھل کر بیان کردیا ہے تو اس پر بھلا اب تنقید کی کیا ضرورت ہے ؟با رہا مولانا منور حسن سے الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا پر یہ سوال کیا گیا کہ طالبان حق پر ہیں یا نہیں تو انہو ں نے با ت کو گو ل مول کردیا پھر آج کیوں جماعت اسلامی کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے؟ جب جماعت اسلامی نے اسامہ بن لا دن کو شہید اعظم قرار دے کر اسکے لیے دعا ئے خیر کا بھرپور انتظام کرایا تو اس وقت ان کو تنقید کا نشانہ کیوں نہ بنایا جا سکا۔
Pakistan Army
جب جماعت اسلامی نے طالبان کی حمایت میں مسلسل بیانات دیے اور ان سے ہمدردانہ رویے کا اظہا ر کیا تو اسوقت انہیں کیو ں نہ روکا گیا؟ پھر آج میڈیا اسقدر اس با ت کو اچھا لنے پر مجبو ر کیو ں دکھائی دیتا ہے ؟امیر جما عت اسلامی نے اپنا پاک فوج کے شہیدو ں کے خلاف بیان ریکا رڈ کروانکی تحریک طالبان پا کستان سے وابستگی اور ہمدردی کو پو ری طرح ثا بت کردیا ہے پاک فو ج جو ملک کی سلامتی اور بقا ء کے لیے شب و روز مصروف جہا د ہے انکے لیے شہا دتو ں کی تصدیق لینے کیلیے کسی نام نہا د ملایا مفتی کی ضرورت نہیں ہے امر ہیں وہ لوگ جو قومیت اور وطینت کا جذبہ لیے جنگلوں ،پہا ڑو ں اور صحرائوں میں اپنی سرحدوں کی حفا ظت کا حق ادا کرر ہے ہیں کرنل امام، خالد خواجہ، میجر جنرل ثناء اللہ اور ہزاروں فوجیو ں کو شہید کرنے والے بھلا شہید کیسے ہو سکتے ہیں؟ شہید تو وہ ہیں جو اپنی قوم اور اپنی دھرتی ماں کے لیے محبت و الفت اور عقیدت کا جذبہ لیے دفا ع کی خا طر راہ حق میں جا نیں قربان کر رہے ہیں ان پاک فو ج کے شہیدوں پر انگلی اٹھا نے والوں کو ملامت کرنا اور محض پاک فو ج سے معذرت کا کہنا بھی گنا ہ ہے بڑا پن ہے مسلح افواج پاکستان کا کہ انہو ں نے محض معذرت کا لفظ استعمال کیا ہے یہ سب سے بڑی جہا لت ہے کہ ہم اپنے محا فظوں اور ملک و قوم کے سپہ سالا روں کو امریکیوں کے ساتھ ملا ئیں اور ان کی تو ہین و تضحیک کریں یہ پاک فوج کے خلاف بیان بازی اور اسقدر تنقید کانشانہ فو ج سے مخالفت نہیں بلکہ ملک سے بغا وت اور غدا ری کے مترادف ہے آئین پاکستان بھی ہمیں عدلیہ اور افواج کی تضحیک اور تو ہین کی اجا زت نہیں دیتا بے شمار سوموٹو ایکشن لینے والے قابل صد عزت و احترام فاضل چیف جسٹس آف پاکستان عمران خان پر اپنی ذات کی خاطر تو ہین عدالت کا مقدمہ چلا سکتے ہیں تو انہیں چا ہیے کہ ملک کے سب سے قابل تکریم ادارے مسلح افواج پاکستان کے شہدا ء کی روحوں کو بے چین کرنے والو ں کے خلاف بھی قانونی کا روائی عمل میں لا ئیں اس معاملہ میں جیو ٹی وی کا حالیہ کردار بڑا مثبت اور قابل تحسین ہے۔
ملک کے سب سے بڑے ملکی وقار ، طاقت اور جرات کی علامت ادارے کو نشانہ بنا نے والو ں کو نشان عبرت بنا دیا جا ئے محض معذرت خواہا نہ رویہ اختیا ر کر نے سے با ت نہیں بنے گی بلکہ با قاعدہ طو ر پر کوئی مو ئثر اور فو ری اقدام اٹھا نا ہو گا تا کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے شہدا ء کی روحوں کو اطمینان میسر آئے اور آئندہ کوئی بھی حکمران یا سیاستدان پاک فو ج پر شک کرنے یا الزام دھرنے کی کوشش نہ کرے پاک فو ج ہماری عزت و آبر و اور ہما ری جند جان ہے جو اس کے خلا ف بو لنے والا ہے وہ ہم میں سے نہیں جب اس ملک کے با شندے اور ایک قومی جما عت کے سربراہ اٹھ کر اس کے کردار کو مشکو ک بنا نے کی کو شش کریں گے تو پھر عام عوام کا ردعمل کیا ہوگا ؟اس حسا س ترین دو ر اور الجھے ہو ئے حالا ت میں ایسی کوئی بھی کوتا ئی اور لا پروائی قابل معافی نہیں ہوسکتی کیو نکہ اس ایک بد دیا نتی اور جھو ٹ پر مبنی بیان سے پو ری دنیا میں ہما رے ملک اور اسکے مضبوط اداروں کی ساکھ کو زبردست دھچکا لگتا ہے پو ری قوم کی خا طر اپنی خو شیا ں اپنی عیدیں اپنی شبراتیں اور اپنی زندگیا ں وقف کرنے والے ہما رے سروں کا تاج ہیں ہما ری رگو ں میں دوڑنے والا خون اور ہما رے جسم میں چلنے والی سانسیں انہی محافظوں کے مرہون منت ہے جو ان کی قربانیو ں اور انکے اخلا ص پر شک انکی شہا دت کے بعد کرے گا تو وہ اس ملک کا وفا دار نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس قوم سے اسکا کوئی واسطہ ہے وہ جن کا ورد کرتا ہے اور جس وطن کے باسیو ں کے ترانے گاتا ہے اسے اسی سرزمین پر جلا وطن کر دینا چا ہیے وہ اس پاک دھرتی اور پاک بندوں میں رہنے کے قابل بھی نہیں ہے آج ہم زندہ ہیں ہم آزاد ہیں ہم ہنسی خو شی پر وقار زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہ سب مسلح افواج پاکستان اور ہمارے ملک کے خفیہ اداروں کی بد ولت ہے منا فق ہے وہ شخص جو احسان فرامو شی سے کام لے اور اپنے ملک کے شہیدوں اور دھرتی ماں پر جانو ں کے نذرانے پیش کرنے والو ں کو برا بھلا کہے اور انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بنائے۔
پاکستان زندہ باد پاک فوج پائندہ باد
SM Irfan Tahir
تحریر : ایس ایم عرفان طاہر موبائل نمبر : 0345-5150670