موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو انڈیا کے مقابلے میں دھماکے کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا۔اب پاکستان میں ایک عرصے کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں یوم تکبیر آیا تو ملک بھر میں پروگرامات کا انعقاد کیا گیا۔یوم تکبیر سے صرف دو روز قبل وزیر اعظم نے انڈیا کا دورہ کیا اور مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔وہاں انڈیا میں کو کچھ ہوا،وزیر اعظم کے ساتھ جو کچھ بیتی اور حلف برداری میں شرکت کے بعد چارج شیٹ تھما دی گئی یہ خوشگوار نہیں ہوا،ایسے موقع پر جب ابھی مودی وزیر اعظم ہی بنا تھاجہاں اس نے اپنی انتخابی مہم پاکستان پر الزامات لگا کر چلائی وہیں حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن نواز شریف سے ملاقات میں اس نے پاکستان پر الزامات لگائے جس کا جواب پاکستان نے نہیں دیا۔
مودی نے اگر ممبئی حملوں کی بات کی،دہشت گردی کی بات کی تو پاکستان کو سمجھوتہ ایکسپریس کی بات کرنی چاہئے تھی ممبئی حملوں پر تو صرف اور صرف الزامات لگائے جا رہے ہیں۔انڈیا میں جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید پر الزامات لگائے گئے لیکن انہیں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے باعزت بری کیا ہے۔انکے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ۔صر ف اور صرف بھارتی الزامات و پروپیگنڈے کی بنیاد پر ذکی الرحمان لکھوی اور انکے ساتھیوں کو جیل میں رکھا گیا ہے ۔ان پر کیس چل رہا ہے انڈیا کوئی ثبوت نہیں دے رہا صرف اور صرف الزامات و پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ انڈیا کا وطیرہ ہے۔انڈیا ایسی حرکتوں سے کبھی باز نہیں آتا۔مودی سرکار جس نے انڈیا کے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ہے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد امریکہ نے اسکو ویزہ دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھ اب اسی مودی کو امریکہ نے بھی مبارکباد کا پیغام دیا ہے اب مودی کو امریکہ کا ویزہ بھی مل جائے گا اسکے مقابلہ میں جسطرح ایک ہندو انتہا پسند،متعصب ترین لیڈر ،مسلمانوں کا قاتل جس کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج ہیں اور وہ انڈیا کا وزیر اعظم بن گیا ہے۔
اگر کسی مسلمان ممالک میں ایسا ہوتا کوئی مذہبی شخصیت وزیر اعظم بنتی تو پوری دنیا میں شور اٹھتا کہ انتہا پسندوں کی حکومت آگئی ہے لیکن انڈیا میں مودی کے وزیراعظم بننے پر عالمی دنیا نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے ۔یوم تکبیر کا دن ایثار،عزم،قربانیوں پر مبنی اور تاریخی دن ہے۔بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔یہی جذبہ و عزم کئی شخصیات تک پہنچا۔ڈاکٹر عبدالقدیر و ڈاکٹر ثمر مند مبارک نے بڑی لگن کے ساتھ مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ پاکستان نے 1984میں ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔امریکہ کے ہمیشہ سے پاکستان سے یہ تقاضے رہے کہ پاکستان کے نیو کلیر پروگرام کو رول بیک کیا جائے اور یہ بھارت و اسرائیل کے لئے کیا جا رہا ہے۔
امریکہ بھارت کو جو کردار سونپ رہا تھا پاکستان کے ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے اسکا پورا ہونا ممکن نہیں تھا۔ سلام ہے ان لوگوں پر جنہوں نے دبائوکے باوجود مشن کو مکمل کیااور نواز شریف کے دور میں پاکستان ایٹمی ملک کے طور پر سامنے آیا ۔دنیا نے پاکستان کے بم کو اسلامک بم کہا ،اسے پہلے یہودی بم،عیسائی بم،ہندو بم موجود ہے تو پھر ہمیں اسلامی بم کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ ملک پاکستان کی طرح ایٹمی قوت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ہم ساتویں نہیں بلکہ پانچویں نمبر کی ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔1971میں سازشوں کے ذریعہ ملک کو دولخت کر دیا گیا۔نریندر مودی امریکہ کی مدد اور اپنی تعداد پر فخر کر رہے ہیںوہ یہ بھول رہے ہیں کہ ہمارے پاس ایٹمی قوت اور شوق شہادت موجود ہے۔اودھو ٹھاکرے پاکستان پر ایٹم بم مارنے کی بات کرتا ہے ہم انہیں پائوں کی ٹھوکر پر نہیں رکھتے۔
جماعة الدعوة پاکستان کے زیر اہتمام یوم تکبیر کے موقع پروفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرح پشاور، کوئٹہ،جہلم، گجرات، چکوال، تلہ گنگ، میانوالی،بھکر،اٹک، ایبٹ آباد، ہری پور،مانسہرہ، میر پور، سیالکوٹ سمیت مختلف شہروں و علاقوں میں تکبیر کارواں نکالے گئے اور جلسوں و کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا جن میں جماعة الدعوة کے مرکزی قائدین کے علاوہ دیگر مذہبی ،سیاسی و کشمیری تنظیموں اور جماعتوں کے رہنمائوں نے خطابات کئے جبکہ تمامتر مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعدادمیں شرکت کی ۔تکبیر کارواں ، جلسوں اور کانفرنسوں میں شریک افراد میں زبردست جوش وجذبہ دیکھنے میں آیا۔شرکاء نے ہاتھوںمیں پلے کارڈزاور بینرزاٹھا رکھے تھے جن پر ا فواج پاکستان کے حق میں اور یوم تکبیر کے حوالہ سے تحریریں درج تھیں۔ تکبیر کارواں جلسوں و کانفرنسوں کے دوران شرکاء کی جانب سے پاکستان کا مطلب کیا’ لاالہ الااللہ، حافظ محمد سعید قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور بھارت و امریکہ کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ یوم تکبیر کے موقع پر جماعة الدعوة کا مرکزی اور سب سے بڑا پروگرام روات سے آبپارہ چوک اسلام آباد تک نکالا جانے والا تکبیر کارواں تھاجس میںاسلام آباد، راولپنڈی اور اس کے گردونواح سے سکولز، کالجز، یونیورسٹیزو دینی مدارس کے ہزاروں طلباء، وکلائ، تاجروں، سول سوسائٹی اور دیگر تمامتر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک بہت بڑے جم غفیر نے شرکت کی۔
Nuclear Power Pakistan
اس موقع پر شرکاء میں زبردست جوش وخروش اور بہترین نظم و ضبط دیکھنے میں آیا ۔تکبیر کارواں میں شرکت کیلئے اسلام آباد، راولپنڈی اور گردونواح کے بیسیوں مقامات سے جماعة الدعوة کے مقامی ذمہ داران اور علماء کرام کی قیادت میں قافلے روات پہنچتے رہے جس پر عوام الناس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع ہونا شروع ہو گیا۔شرکاء کے فیض آباد چوک پہنچنے پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور حافظ محمد سعیدودیگر قائدین اور کارواں میں شریک افراد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ مقررین کے خطابات کے دوران شرکاء کے ایک ساتھ کلمہ طیبہ والے اور پاکستان کے پرچم لہرانے سے بڑا دل فریب منظر دیکھنے میں آیا۔ کارواںکے شرکاء انتہائی آہستہ رفتار میں چلتے ہوئے آبپارہ چوک پہنچے جہاں ایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ یوم تکبیر کے موقع پر روات سے آبپارہ چوک تک نکالا جانے والاتکبیر کارواں اور جلسہ عام ملکی تاریخ کا منفرد اور سب سے بڑا پروگرام تھا ۔روات سے آبپارہ چوک اسلام آبادتک نکالا جانے والا تکبیر کارواں ہفتہ تکبیر مہم کے سلسلہ میں صرف وفاقی دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ملک بھر میںیوم تکبیرکے حوالہ سے ہونے والا سب سے بڑا پروگرام تھا۔
تکبیر کارواں، جلسوں ، ریلیوں اور کانفرنسوں میں ہزاروںشہداء کے ورثاء نے شرکت کی اور اسلام و پاکستان کے دفاع کیلئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانی پیش کرنے کا عزم کیا گیا۔ 28مئی کو ماضی میں بھی اگرچہ جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیاجاتا ہے لیکن جماعةالدعوة کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یکجہتی کشمیر کانفرنسیں ہوں ، تکبیر کارواںیا نظریہ پاکستان کے حوالہ سے ہونے والے احیائے نظریہ پاکستان مارچ اور کانفرنسیں’ ان میں مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والے مجاہدین کے ورثاء بھی ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں ۔ تکبیر کارواں اور جلسہ عام سے امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، جنرل (ر) حمید گل، مولانا محمد احمد لدھیانوی، لیاقت بلوچ، حافظ عبدالرحمن مکی، سینیٹر بابر اعوان، حافظ حسین احمد،سینیٹر طلحہ محمود، مولانا فضل الرحمن خلیل، غلام محمد صفی، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا امیر حمزہ، قاری یعقوب شیخ و دیگر نے خطاب میں کہا کہ امریکہ پاکستان میں پراکسی وار کے لئے افغانستان میں انڈیا کی فوج جمع کر رہا ہے۔نواز شریف لیاقت نہرو معاہدہ کے تحت کشمیر کی بات کریں ۔کشمیری و پاکستانی قوم کا اعتماد بحال اور 1998والے جذبے پیدا کریں قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔مسئلہ کشمیر کا کوئی آئوٹ آف باکس حل قبول نہیں کیا جائے گا۔مسئلہ کشمیر ،مسلمانوں پر مظالم اور بابری مسجد کا ذکر چھوڑ کر بھارت سے تجارت قبول نہیں۔
کشمیریوں کو آزادی دیئے بغیر مودی کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھء گا۔پاکستان میں ہندو محفوظ،بھارت میں مسلمانوں پر ظلم اور مساجد و مدارس کو شہید کیا جا رہا ہے۔حکومت اس مسئلہ کو بھر پور انداز میں اٹھائے۔نواز شریف نریندر مودی سے 1999ء کی سطح پر سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو کنٹرول لائن پر سے باڑ، ڈیموں کی تعمیر اور پختہ مورچے ختم کروائیں۔مسئلہ کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی اور امن کی آشا نہیں چلے گی۔بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم نظر انداز کر کے آلو پیاز کی تجارت قبول نہیں۔ نواز شریف کے دورہ بھارت سے کشمیر ی قوم سخت مایوس ہوئی ہے۔مسلمان یورپی ہونین کی طرح اسلامی یونین بنائیں۔مشترکہ دفاعی نظام ،اپنی تجارتی منڈیاں اور اسلامی سکے بنائیں ۔آپ یہ کام کریں عالم اسلام کے قائد بنیں گے۔مودی بی جے پی نہیں آر ایس ایس کا تربیت یافتہ دہشت گرد ہے۔ نوازشریف سوچ سمجھ کر پالیسیاں ترتیب دیں۔ ایٹمی دھماکوں میں ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم اور پاک فوج کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔