جیو اور جنگ کا عوام نے بائیکاٹ کیا کیا، خود کو امریکہ سمجھنے والے اس گروپ کو 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار دن میں تارے نظر آنے لگے۔ صحابہ کرام اور اہل بیت کی شان میں گستاخی کے بعد جب ڈنڈے برسے تو مبہم اور چکر بازی پر مشتمل معافی ڈرامے کے بعد اب آئی ایس آئی پر حملے کی بھی اسی انداز میں معافی مانگی گئی ہے کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو ”ہم معافی مانگتے ہیں” لیکن کیا جیو یا جنگ نے اس سب سے کچھ سبق سیکھا ہے…؟ جو اب ملے گا۔ ہرگز نہیں …اس کا ثبوت جیو اور جنگ بار بار آج بھی اپنی سکرین اور اپنے صفحات پر خود ہی فراہم کر رہا ہے۔
یہ 24 مئی ہفتہ کے دن کا جنگ اخبار ہے جس میں ایک خبر لگی ہے۔ ”برقعہ ایونجر” بابا بندوق، حلوہ پور سے کتابیں غائب کرنے والا ہے (اتوار کے روز اڑھائی بجے جیو ٹی وی پر دیکھئے) یہ جیو پر چلنے والی کارٹون سیریز ” برقعہ ایونجر” کی تشہیری خبر ہے۔ کارٹون سیریز برقعہ ایونجرکا آغاز گزشتہ سال جولائی 2013ء میں ہوا تھا۔ ابھی جیو ٹی وی پر اس کو باقاعدہ طور پر نشر کرنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ سوشل میڈیا پر عوام نے اس پر سخت نکتہ چینی کی۔ لاکھوں لوگوں نے کھل کر بتایا کہ اس میں برقعہ، داڑھی اور دینی طبقے کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اسے نہ چلایا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جیو اور جنگ کو اس سے کیا پروا… انہوں نے یہ سیریز چلا دی کہ پھر وہی دعوے پہ دعوے کہ ”ریٹنگ اور مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے”، ”ہر طرف دھوم مچ گئی” وغیرہ وغیرہ ۔
اس کارٹون سیریز میں پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں کو ”حلوہ پور” کا نام دے کر دین دار طبقہ کا مذاق اڑایا گیا تو دین دار داڑھی والے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کا دشمن ثابت کر کے انہیں کا نام بابا بندوق رکھا گیا۔ انہیں سکول گراتے اور بچوں کو بھگاتے دکھایا گیا تو ساتھ ہی داڑھی کی عجیب و غریب ہیئت بنا کر داڑھی والے لوگوں کو بدبودار اور غلیظ کہا گیا۔ برقعہ ایونجر ایک ایسی لڑکی کو قرار دیا گیا ہے جو برقعہ پہنے ہوئے ہے جو خواتین کی تعلیم کے دشمنوں پر حملے کرتی اور انہیں کتابوں اور قلم کے ذریعے تباہ و برباد کرتی ہے۔ برقعہ کا استعمال خود کو چھپانے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے کیا جاتا ہے جبکہ ایک معزز و مفید زندگی گزاتے ہوئے وہ بغیر برقعے کے سامنے آتی ہے۔ کارٹون سیریز میں گانے بجانے کی خوب پذیرائی دکھائی جاتی ہے تو شرکیہ افعال و اقوال کی بھرمار ہے۔ توہین اسلام پر مبنی اس سیریز کو اب بھی چلایا جا رہا ہے کیونکہ ابھی تک جیو اور جنگ کو عوام کی جانب سے اس ردعمل کا سامنا نہیں ہوا جیسا کہ اس 19 اپریل کے حامد میر پر ”حملے” کے بعد فوج کے خلاف ہرزہ سرائی اور توہین صحابہ و اہل بیت پر ہوا ہے۔ اس سے تو صاف سمجھ آتی ہے کہ جیو اور جنگ گروپ کی یہ معافیاں محض ”وقت ٹرخائو اور بے وقوف بنائو” کے علاوہ کچھ نہیں، ورنہ وہ اس طرح کی گستاخیاں اور توہین اب تو روک دیتے۔
چلئے! انہوں نے کہا کہ ہم نے فوج پر حملے کے حوالے سے بھی معذرت کر لی لیکن اسی ہفتے جنگ اخبار میں چھپنے والی یہ خبر آخر کیا ہے جس میں ملتان سے نمائندہ جنگ نے وہاں عوام کے جانب سے جیو اور جنگ کے بائیکاٹ کی مہم کو ”فرشتوں کی مہم” قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر خفیہ ہاتھوں اور سفید کپڑوں والوں کی کارستانی قرار دیا ہے۔ نمائندہ جنگ ظفر آہیر کی خبر پڑھیے اور خود اندازہ کیجئے کہ جنگ گروپ آج بھی کہاں کھڑا ہے؟ جنگ جیو گروپ” کے پچاس ہزار سے زائد کارکنوں کا معاشی قتل عام کرنے کے لئے فرشتے بھرپور طریقہ سے متحرک ہو گئے ہیں۔ جیو کو ملک بھر میں بند کروانے کے بعد اب انہوں نے اپنی توپوں کا رخ ”جنگ” کی طرف کر دیا ہے۔ بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کو باقاعدہ طلب کر کے حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے دفاتر سے جنگ بند کروا دیں۔ اخبار فروشوں سے کہا گیا ہے کہ جنگ کی جگہ ایکسپریس فراہم کریں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں پہلے سے جنگ گروپ کے اخبارات کی فروخت پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ ایسا بھی ہو رہا ہے کہ بوسن روڈ اور گلگشت کالونی جہاں جنگ کی سرکولیشن بہت زیادہ ہے۔
Mubashir Luqman
وہاں سفید کپڑوں والے اسٹالوں پر موجود جنگ کی تمام کاپیاں خرید لیتے ہیں تاکہ اخبار قارئین تک نہ پہنچ سکے۔ یہیں پر بس نہیں ”جیو” کی بندش کے بعد کارکنوں کے متوقع احتجاج کو روکنے کے لئے بھی فرشتوں نے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ 22 مئی کو اے آر وائی ٹی وی پر اینکر مبشر لقمان نے جیو ٹی وی پر مختلف پروگراموں میں قرآنی آیات کی غلط تعبیر اور غلط استدلال کے ساتھ ساتھ خواتین کیلئے طلاق کے بعد قرآنی حکم ”عدت” کا مذاق اڑانے کے دلائل پیش کئے لیکن بجائے اس کے کہ جیو و جنگ اپنی اصلاح کی بات کرتے، انہوں نے الٹا یہ خبریں چلانا شروع کر دیں کہ عوام گستاخانہ قوالی چلانے پر ملک بھر میں دیگر چینلوں کے خلاف احتجاج تیز کر دیا ہے۔ حالانکہ سارے ملک میں احتجاج تو صرف جیو اور جنگ کے خلاف ہو رہا ہے اور مقدمات بھی ان کے خلاف ہی دائر کئے جا رہے ہیں لیکن جیو اور جنگ کی کوشش ہے کہ معاملہ کا رخ تبدیل کیا جائے بات یہیں تک نہیں کہ انہیں ان کی حرکات پر کبھی کسی نے آگاہ نہیں کیا۔ گزشتہ سال جیو فلمز نے بھارتی فلم ”ریس” کی پاکستان میں نمائش و پذیرائی کیلئے خوب مہم چلائی۔ اس فلم کے تشہیری پوسٹرز پر بدکار، فحش و نیم برہنہ فلمی عورتوں کے ساتھ قرآنی آیات بھی لکھی ہوئی تھیں۔ سوشل میڈیا پر عوام نے جیو و جنگ کو اس جانب توجہ دلانے کی حد کر دی لیکن ان پر ذرا بھر اثر نہ ہوا۔ سوشل میڈیا جو عوام کی حقیقی آواز ہے یہاں جیو اور جنگ کی ہر حرکت کا عوام خوب خوب نوٹس لیتے اور ان کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہے اور آج بھی کرا رہے ہیں لیکن گروپ کے صحافیوں نے کبھی بھی اس سے نہ اپنی اصلاح کی کوشش کی اور نہ اسے کبھی درخور اعتنا سمجھا بلکہ جناب حامد میر اور سلیم صافی جیسے صحافی ہمیشہ اسے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کی اپنے خلاف مہم قرار دیتے رہے۔ انہوں نے عوام کی جانب سے اس اصلاح کی کوشش کو بھی پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملے میں استعمال کیا۔ حامد میر صاحب پر نے حملے کے بعدخود لکھا کہ گولیاں میرا دایاں کندھا اور ٹانگیں چیر کر نکلی ہیں لیکن 20 مئی کو جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو نہ صرف ان کا دایاں کندھا صحیح سلامت تھا جس کو اٹھا کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔
بلکہ وہ ٹانگیں جن کو گولیوں نے ان کے بقول چیر دیا تھا صحیح و سلامت تھیں اور وہ ان پر کھڑے ہو کر چل بھی رہے تھے، البتہ پیٹ پر لیکن ٹی شرٹ کے اوپر انہوں نے پٹی باندھ رکھی تھی۔ اس سے ایک لطیفہ یاد آیا کہ جو ہمیں ہمارے ایک دوست نے سنایا تھا۔ کہنے لگے کہ ہمارا ایک دوست اپنی دائیں ٹانگ پر پٹی باندھ کر لیٹا تھا، پوچھا تو زخمی ہونے اور شدید درد کی شکایت کی لیکن ہم میں سے کسی نے اسے بھانپ لیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سو گیا تو پھر ہم میں سے ایک نوجوان نے اس کی پٹی دائیں ٹانگ سے کھول کربائیں ٹانگ پر باندھ دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بیدار ہوا تو اس نے دائیں ٹانگ کو بھول کر پٹی والی بائیں ٹانگ پکڑ رکھی تھی اور کراہ رہا تھا جس پر سب کی ہنسی نکل گئی۔
جناب حامد میر نے اسی عرصہ میں اپنے لکھے گئے کالموں میں جس طرح ایک بار پھر خفیہ اداروں اور فوج کو نشانہ بنایا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سو اب یہ معافی معافی کا ڈرامہ بند کریں اور خود کو سزا کے لئے پیش کریں۔ اگر یہ سمجھ صاحب اختیار کو آ گئی تو سبھی کیلئے بہتر ہو گا ورنہ آوے کا آوہ ہی بگڑا رہے گا۔