بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ وزیر مملکت برائے وزیراعظم آفس جتندرا سنگھ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حکومت اس آرٹیکل پر بحث کو تیار ہے اور اس مقصد کے لیے این ڈی اے کی حکومت اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کر رہی ہے۔ پہلے ہی روز تنازع کی بنیاد رکھتے ہوئے جتندرا سنگھ نے کہا کہ اس اقدام سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
جس کا اظہار انھوں نے انتخابی مہم میں کیا تھا۔ آئین کی دفعہ 370 ترقی میں نفسیاتی رکاوٹ ہے۔ متنازع حیثیت کی وجہ سے آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارتی وزیر مملکت کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر اور بھارت میں واحد لنک آئین کا آرٹیکل 370 ہے۔ آرٹیکل 370 آئین کا حصہ نہ رہا تو کشمیر بھارت کا حصہ بھی نہیں رہے گا۔
مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے دفعہ370 کی اہمیت کو اقوام متحدہ قرار دادوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ صرف جموں کشمیر میں اس وجہ سے نافذ ہے کہ ابھی تک اصل قرار دادوں کو عملایا نہیں گیا۔ اگر حکومت ہند اس دفعہ کو منسوخ کرانا چاہتی ہے تو اس کے بعد اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو لاگو کرنے کا ایک ہی متبادل رہتا ہے۔ دفعہ 370 کا واسطہ اصل میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ساتھ ہے کیونکہ یہ دفعہ جموں کشمیر میں اسی لئے نافذ ہے کیونکہ ابھی تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں کیا گیا۔
دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت ریاستی عوام کو حق خود ارادیت کا موقعہ دینے کا ہی حکومت ہند کے پاس متبادل راستہ ہے۔ دفعہ 370 کے علاوہ آئین ہند کی دفعہ 371 A، 371B، 371C، 371D، 371G، 371H، اور 371I میں بھی جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا ہے تاہم ابھی تک اس دفعہ کو ہٹانے کی بات کسی نے نہیں کی۔ بھارت کے ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمز نے اپنی شائع کردہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جموں کشمیر بھارت کا حصہ نہیں تھا’ ایسے میں ریاست کے پاس دو متبادل تھے یا تو وہ ہندوستان میں شامل ہوجائے یا پھر پاکستان میں۔
تاہم جموں کشمیر کی زیادہ تر عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے مگر اس وقت کے حکمران ہری سنگھ کا جھکائو ہندوستان کی طرف تھا۔ نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہری سنگھ نے ہندوستان میں شامل ہوتے وقت ”اسٹرومینٹ آف اکسیشن” نام کے دستاویز پر سائن کئے تھے۔اس کا خاکہ شیخ عبداللہ نے تیار کیا تھا جس کے بعد ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس کے تحت ہندوستان کی تمام ریاستوں میںنافذ ہونے والا قانون جموں کشمیر میں لاگو نہیں ہوتا۔ بھارتی حکومت صرف دفاع، خارجہ پالیسی، خزانہ اور مواصلات جیسے معاملات میں ہی دخل دے سکتی ہے۔
آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اور اسے بغیر ریاستی حکومت کی رض امندی کے مرکزی حکومت کیلئے ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔آرٹیکل 370 کی شق تین کے تحت بھارتی صدر چاہیں تو نوٹیفکیشن جاری کر کے اس آرٹیکل کو ختم کر سکتے ہیں یا اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے پہلے انہیں ریاستی حکومت سے منظوری لینا ہو گی۔ بی جے پی اسے بھارتی سالمیت میں رکاوٹ سمجھتی ہے جو جموں کشمیر کو بھارت سے الگ کرتی ہے اس لئے بی جے پی کے انتخابی منشور میں اس آرٹیکل کو ہٹانے کی بات کی گئی ہے۔ حریت کانفرنس (گ) مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سیدعلی گیلانی نے دفعہ 370 پربحث کو لایعنی اور وقت کا زیاں قراردیتے ہوئے کہا کہ دہلی والوں نے منصوبہ بند طریقے سے اس دفعہ کو کھو کھلا بنادیاہے۔
Kashmir
تاہم حریت (گ)سربراہ نے370 کو جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقہ ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس منہ بولتے ثبوت کو ختم کرنے کی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔سید علی گیلانی نے ڈاکٹر جتندر سنگھ کے دفعہ 370 پر دئے گئے متنازعہ بیان اور اس پر این سی، پی ڈی پی کے ردّعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفعہ 370 اگرچہ صرف کاغذوں تک محدود رہ گئی ہے اور دلی والوں نے وقت وقت پر ہندنواز کشمیری لیڈروں کی مدد سے اس کو کھو کھلا بنادیا ہے، البتہ بھارتی آئین میں اس دفعہ کا موجود ہونا ہی اس حقیقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کی اتر پردیش یا پنجاب جیسی کوئی ریاست نہیں ہے بلکہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس علاقے کے حتمی اسٹیٹس سے متعلق فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
دہلی والے اصل میں اس دفعہ کی بچی کھچی صورت کو ختم کرکے غیر ریاستی باشندوں کو بڑے پیمانے پر یہاں لاکر بسانا چاہتے ہیں اور وہ یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور اسرائیلی طرز پر ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کے ایک خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں حائل آخری رْکاوٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سید علی گیلانی نے خبردار کیا کہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے اس منہ بولتے ثبوت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات پر دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے نواز شریف کے رویہ کو بھارت کی طاقت کے سامنے پاکستانی حکومت کے سیاسی سرنڈر سے تعبیرکیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ در اصل مودی کی حلف برادری کی تقریب کوئی روایتی تقریب نہیں تھی بلکہ بھارت پوری دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خطے میں بھارت ایک سپر پاورہے اور دیگر چھوٹے ممالک اس کے ساتھ ساتھ چلنے اور ہاں میں ہاں ملانے میں ہی خیر سمجھتے ہیں۔ در اصل مودی وہی نظریہ اکھنڈ بھارت لیکر اٹھا ہے جو بھارت تقسیم سے قبل نہرو گاندھی اور دیگر ہندوستانی لیڈران کا تھا۔ پورے دورے کے دوران جو رویہ اور طرز تخاطب نواز شریف نے استعمال کیا وہ صرف اور صرف شکست خودرگی اور خود سپردگی کا تھا۔ مودی نے نواز شریف سے جو بات کی وہ دہشت گردی اورممبئی حملہ پر محیط رہی لیکن نواز شریف نے ہندوستان کی طرف سے کشمیر اور پاکستان میں جاری دہشت گردی کا ذکر تک زبان پر نہیں لایا۔
نواز نے ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے کہا کہ دونوں وزراء اعظم نے تمام تصفیہ طلب دو طرفہ معاملوں پر بات چیت جاری رکھنے کا رادہ کیا ہے۔ آسیہ اندرابی نے کہا کہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کوئی دو طرفہ معاملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی مسئلہ ہے اس طرز عمل سے ثابت ہو اکہ یہ نشست صرف آلو وٹماٹر کی تجارت تک ہی محدود رہی اور نواز شریف پاکستان کیلئے ناگزیر پانی تک کا مسئلہ نہیں اٹھا پایا۔ یہ ویسا ہی سرنڈر ہے جو 1971 میں جنرل نیازی نے بھارت کی فوجی طاقت کے سامنے کیا تھا اور آج نواز شریف نے تاریخ کو دہراتے ہوئے بھارت میں نریندر مودی کے سامنے سیاسی سرنڈر کیا۔نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ پاک و بھارت کی تہذیب ایک ہے ، تو پھر کشمیری قوم انن سے سوال کرتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق کی ضرورت کیا تھی۔ شاید نواز شریف تاریخ سے نابلد ہے۔
اور انہوں نے قرار داد پاکستان کا دستاویز بھی نہیں پڑھا جس میں قائد اعظم نے واضح کر دیا تھا کہ ہندو ا ورمسلم تہذیبی اعتبار سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ نواز شریف کی یہ لن ترانیاں کشمیری قوم اور پاکستانی قوم کی بیش بہا اور عظیم قربانیوں پر سب خون مارنے کے مترادف ہے اور کشمیری قوم کبھی اس کی اجازت نہیں دے گی۔ نواز شریف کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ وہاں کی سیاسی قیادت اور عوام و فوج میں تحریک کشمیر کے حوالے سے بعد المشقین ہیں۔ نواز شریف کا سرنڈر کشمیری قوم کے لئے ناقابل قبول و ناقابل برداشت ہے اور ہم نے جو قربانیاں پیش کی ہیں ہم ان سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے۔ نواز شریف کے اس بیان سے کشمیر کی تحریک پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر تکمیل پاکستان کی تحریک کو شدید دھچکہ لگے گا۔