اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس دنیا میں خلیفہ یعنی اختیارات دے کر بھیجا ہے۔ یہ اختیارات ایک فرد کی حثیت میں ، کسی بھی گروہ پر اختیارات کی حثیت میں، قدیم دور کی مطلق العنان بادشاہتوں کی صورت میں، جدید دور کی جمہوری حکومتوں میں صدر یاوزیر اعظم اور جبر سے حاصل شدہ فوجی ڈکٹیٹر شپ میں اختیارات ہوں یا اس کے علاوہ دوسری کوئی بھی اختیارات کی صورت ہو اللہ انسان کو ہر حالت میں عدل و انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ اس قرآنی ہدایات سے انحراف کرتے ہوئے ہر دور کا مقتدر انسان، خوہشاتِ نفس کے پیچھے پڑھ کے ظلم و زیادتی کرتا رہا ہے ان ہی ناحق فیصلوں کی وجہ سے انسان اللہ کی راہ سے بھٹکتا رہا ہے۔
اس کے اسی فعل سے دنیا میں ظلم وستم ،بے سکونی اور افراتفری جنم لیتی رہی ہے جیسے ہمارے ملک کے حالات ہیں۔قرآنی ہدایت ہے کہ”ہم نے (اے انسان) تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی”(سورة ص:٢٦) یہ تو اختیارت رکھنے والوں کی بات ہے مگر جن پر اختیارات استعمال کئے جاتے ہیں یا کئے جاتے رہے ہیں ان کے لیے قرآنی ہدایا ت کیا ہیں”خواہشِ نفس کی پیروی کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو،جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہو” (الکف:٢٨) ایسے مقتدر لوگوں کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے جو اللہ کے احکامات کے مطابق اختیارات استعمال نہیں کرتے اور اپنے اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے۔
ظالم کا ظلم سہنہ ظالم کی کی مدد کرنا۔ اس حدیث کی روح سے ظالم کی اطاعت کرنے سے منہا کیا گیا ہے۔جدید دور میں دنیا نے ان قرآنی ہدایات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس قصے کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت کے اختیارات کی تقسیم کر دہی گئی ہے تاکہ اختیارات ایک شخصیت کے پاس جمع ہونے کی شکل میں اپنی نفسیاتی خواہشات کے پیچھے نہ پڑھ جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جدید دور میں کوئی بھی حکومت ہو اس کا ایک آئین بنایا جاتاہے جس میں اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے جو اس ملک کے منتخب لوگ ایک جگہ یعنی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں۔آئین کے تشریع کی لیے ایک عدلیہ ہوتی ہے جو ناانصافی کی صورت میں عوام کوانصاف مہیا کرتی ہے۔
Pakistan
صاحبو! اب ہم اس تجزیے کی روشنی میں اپنے ملک کی صرف تین حکومتوں، یعنی ڈکٹیٹر مشرف ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں نفس کی پیروی کی اور کہاں کہاں عدلیہ نے عوام کو انصاف مہیا کیا۔ پہلے ڈکٹیٹر مشرف کی بات کرتے ہیں کہ جس نے جبر سے منتخب ایک حکومت پر قبضہ کرلیا اور باقی دو کو مملکت پاکستان کے لوگوں نے اپنی رائے سے تین تین دفعہ حکومت کرنے کے لیے چنا ۔ ڈکٹیٹر تو اس وقت مکافات عمل کے تحت سزا بگھت رہا ہے۔ پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو گئی جبکہ مسلم لیگ(ن) مرکز اور ملک کے بڑے صوبے پنجاب کے اندر حکمران ہیں جبکہ خیبرپختوخواہ اور بلوچستان میں بھی کولیشن حکومتیں بنا سکتی تھی ۔ڈکٹیٹر مشرف نے جب ملک پر قبضہ کیا تھا۔
تو اس وقت ہمارا دوست نما دشمن، امریکہ ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کے پیچھے پڑا ہوا تھا اُس وقت افغانستان میںطالبان کی حکومت کی وجہ سے ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی نہ آج جیسے حالات تھے نہ ہم نے سوالاکھ فوج مغربی سرحد پر لگائی ہوئی تھی ۔امریکہ ہر حالت میں افغانستان پر حملہ کرنا چاہتا تھا تاکہ ایک اسلامی ریاست کو بزور ختم کر دے اور اس کے وسائل پر قبضہ کر لے۔ اس میںحمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے ڈکٹیٹر مشرف کو دھمکی دی کہ ہمارا ساتھ دوورنہ تمھارے ملک کو بمباری کر کے پتھر کے زمانے میں پہنچا دوں گا ڈکٹیٹر مشرف نے قوم اور اپنی فوج اورعوام سے مشورہ کیے بغیر اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اختیارات کے غلط استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے سارے مطالبات منظور کر لیے اور اپنا پورا ملک امریکہ کے حوالے کر دیا جس کا خمیازہ پاکستان بارہ سال سے بگھت رہا ہے۔
ڈکٹیٹر مشرف نے پاکستان میں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ عالمی لیڈر بننے ،پاکستان کو روشن خیال بنا کر پاکستان کا کمال اتاترک بننے کی خواہش ِنفس ڈکٹیٹر کو لے ڈوبی۔ عدلیہ کو انصاف کرنے سے روکا اور اسے قید میں ڈال دیا۔ مشرف کو جب پاکستان کی عوام نے ناپسند کیا تو امریکہ،برطانیہ کی حمایت سے ڈکٹیٹر مشرف اور مرحومہ بینظیر بھٹو نے این آر او معاہدے کیا معاہدے کی خلاف ورزی پر بے نظیر کو شہید کر دیا گیا پھر نام نہاد الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی جس کے صدر جناب آصف علی زرداری اور وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی منتخب ہوئے۔
پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ نواز شریف صاحب کی فرنڈلی اپوزیشن کی حمایت سے پانچ سال حکومت کی۔مگر پیپلز پارٹی نے کرپشن کا وہ ریکارڈ قائم کیا کہ مدد کرنے والے بیرونی ممالک نے حکومت کے ذریعے مدد بند کردی اور امدادکی رقم خود خرچ کرنے کو کہا اس سے ملک کی بدنامی ہوئی۔ نفس کی خواہشات پر عمل کرتے ہوئے زرداری صاحب نے صدارتی محل کے کچن کی تہذین وآرائش پر٢٧ کروڑ خرچ کر کے فضول خرچی کی انتہا کی۔ ملک سے لوٹی ہوئی دولت سوس بنک میں جمع کی۔ پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے پہلے وزیراعظم کی فیملی کی کرپشن اور دوسرے وزیر اعظم کا راجہ رینٹل مشہور ہونا اور اختیارات کے بغیر عوامی خزانے سے بھاری رقم خرچ کے مقدمات میں اب تک الجے ہوئے ہیں۔
کل ہی ایک عدالت کی طرف سے پیپلز پارٹی کے دو مرکزی راہ نمائوں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں۔ جب ملک کی عدلیہ نے کرپشن کے خلاف فیصلے دیے تو اس پر عمل درآمد نہیں کیا یا پس وپیش سے کام لیا۔کرپشن، مہنگاہی، لوڈشیدنگ،لاء ایندآڈر، بھتہ خوری اور کراچی بند امنی کی وجہ سے عوام نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ووٹ نہ دے کراس حکومت کو ختم کر دی ۔ اس کے بعد نواز شریف نے پاکستان میں تیسری دفعہ حکومت بنائی مگر آج تک الیکشن میں دھاندلی کا قصہ چل رہا ہے۔
سال گزر گیا مگر حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ اس سے زیادہ خراب ہو گئے ہیںعوام کو بجلی،مہنٔگائی کے لیے فوری ریلیف دینے کے بجائے چین سے گوادر تک کوریڈور بنانے کے منصوبے بنائے گئے۔ عوام کی مرضی کے خلاف ملک کے ایک میڈیا گرپ کی حمایت،آئی ایس آئی کے خلاف جرم میں اس کی گرفت نہ کرنا، کشمیر مسئلے پر پیش رفت کے بغیر انڈیا کو موسٹ فیورٹ ملک قرار دینے کی خواہش اور مودی سے ملاقات میں پاکستان میں انڈیا کی مداخلت کی بات نہ کر کے عوام کو ناخوش کر دیا ہے جبکہ مودی نے امریکہ کی طرح ڈو مور کا کہتے ہوئے بمبئی حملے اور پاکستان کے زیر کنٹرول علاقوں سے دہشت گردی کی بات سن کر مناسب جواب نہ دینا بھارت کی سپرمیسی قبول کرنے کے متردد ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سب باتیں اپنے نفس کو خوش کرنے کی باتیں ہیں اس میں عوام کی مرضی شامل نہیں اور جو حکومت عوام کی مرضی کے خلاف جاتی ہے عوام اسے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔