رات کے اندھیرے میں عازم سفر ہونے والے حکمران کبھی وائیٹ ہائوس کی رنگینیوں میں کارگل کی جنگ ہار آتے ہیں اور کبھی مکتی باہنی کے بھیانک کردار”مودی ” کے سامنے کھلتے گلابوں اور گل رنگ چناروں کے دامن میں لہو لہو وادی کشمیر، سیاچین کی یخ بستہ ہوائوں میں انڈیا کی دریدہ جارحیت پر اُن کی آواز نہیں نکلتی کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہندو بنیئے کو یہ باور کرا دیا جاتا کہ ممبئی بم دھماکے تمہارا خود ساختہ کیا دھرا ہے اجمل قصاب پاکستان میں زندہ ہے اور تم نے وطن عزیز کو عالمی فورم پر دہشت گرد ثابت کیلئے اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا۔
الدعوٰ ة کے حافظ سعید اوردائود ابراہیم کو ”Most wanted ”کہا گیا مگر بخدا یہ الدعوٰة کے مجاہدین ہیں جن کا خوف ایک ہندو بنیئے کو سونے نہیں دیتا جو قصر اسلام کی تعمیر میں خون ِ جگر سے گارا اور مٹی فراہم کر رہے ہیں جن کا انگ انگ ظاہری زندگیوں سے لبریز بے مقصد زندگی کے بے کیف تسلسل کو توڑ کر وقت کی گھڑیوں کو فیصلہ کن بنا کر تاریخ کے سپرد کر رہا ہے مردِ مومن مردِ حق کے دور میں امریکہ نے لفظ جہاد کو اتنا پالش کیا کہ ہر مسلم نوجوان موت سے آزادی کی خواہش کرنے لگا۔تب سوویت یونین کے وجود کے خلاف افغان سرزمین پر ہر افغان نوجوان کے ہاتھوں میں امریکی اسلحہ تھاسوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے اور دنیا میں طاقت کا توازن ختم ہوا تو امریکہ نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھنے والے مجاہدوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیاکل کے مجاہد دہشت گرد قرار پائے سوویت کے ساتھ افغانستان کی گیارہ سالہ جنگ میں افغانستان کی معیشت بھی تباہ ہوئی جس کی معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے اسامہ نے تجوریوں کے منہ کھول دیے اب افغانستان میں امریکہ کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے والے مجاہدین /طالبان کی حکومت تھی۔امریکہ کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ تھاکہ جن لوگوں نے اپنے وقت کی سپرپاور سوویت یونین کو پاش پاش کردیا وہ امریکہ کے وجود کو کیسے برداشت کریں گے۔
ان لوگوں کے خلاف کاروائی کے لیے نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ وجود میں آیا جس کو جواز بنا کر اسامہ بن لادن کو مجرم قراردے دیا گیا۔طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو طلب کیا گیا مگر انہوں نے اپنی مہمان نوازی کی روایت کی پاسبانی کرتے ہوئے اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
Hafiz Mohammad Saeed
امریکہ نے اپنے فضائی حملوں سے افغانستان میں نہ صرف انسانی زندگیوں کو بارود کا ڈھیر بنا ڈالا بلکہ ایک شخص کی خاطرطالبان کی حکومت بھی جاتی رہی۔میاں محمد نوازشریف جب دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تواُن کے پہلے دورہ امریکہ کے دوران بن لادن سر فہرست رہے بالکل اسی طرح جس طرح موجودہ دورہ انڈیا کے دوران حافظ محمد سعید اور دائود ابراہیم سر فہرست رہے نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ تو بہت بعد کی بات ہے تب اُس وقت کی وزیر خارجہ البرائیٹ نے میاں نواز شریف سے اپنی ملاقات میں کہا۔
“We have The serious problems withthe Talban. All made clear that of primary importance to the US. Govt is the expulsion of Osama Bin Ladan from Afghanistan so that he can be brought to justice.
میاں محمد نواز شریف خاموش رہے تو میڈلین البرائیٹ نے مزید کہا کہ “I think its fair to say that there was no love lost nor any sympathics expressed for Osama Bin Ladan in that meeting in our view about Bin Ladan, it is very simple. He is a terrorist, heis a murderer.
بن لادن زندگی میں قصر سفید کا دردِ سر رہا۔ایک ایسا وجود جو امریکی سامراج کے لیے نہ صرف افغانستان میں بلکہ کرہ ارض پر یہودی مفادات کے لیے خطرہ تھا۔اس وجود کی تلاش میں امریکیت کو اپنی ناکامیوں کے بعد کسی میر جعفر کی تلاش تھی 80ء کے عشرے میں رزمِ حق وباطل میں برسرپیکاروہ فولادی قوت جو روس جیسی سپرپاور کی شکست وریخت میں بنیادی کردار بنی وہ شاہین جس نے قصر ِسلطانی کو چھوڑ کر پہاڑوں کی چٹانو ںکواپنا مسکن بنایا ۔بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھنے والی وہ اُس قوم کا سپوت تھاجس میں حق پرستوں کو زہر پینا پڑا۔تپتی ریت پر احد ،احد کہنے والوں کو لیٹنا پڑا۔بھڑکتی آگ میں کودنا پڑا۔کھال اُتروانی پڑی ،سولی پر چڑھنا پڑا۔انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا مگر حق سے باز نہ آئے آج حافظ سعید بھی اُس قوم کا فرزندہے جس میں آقائوں نے غلاموں کی سواریوں کی مہاریں پکڑیں۔ حاکم ِ وقت قاضی کی عدالت میں مدعا علیہ کی صورت میں پیش ہوا۔عرب وعجم کے فرمانروا نے حدوداللہ کی پاسبانی کرتے ہوئے بیٹے پر کوڑے برسائے۔خلیفہ ء وقت نے اکلِ حلال کے لیے باغوں کی گوڈی کی۔
منگتوں کی جھولیاں جواہرات سے بھرنے والوں نے سوکھے ٹکڑے چبائے۔جو اور کھجور کھا کر قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں ملایا۔مسجد کے کچے فرش پر بیٹھ کر ایشیاء اور افریقہ کی قسمتوں کے فیصلے لکھے۔پھٹے پرانے کپڑوں اور پھٹے جوتے والوں نے کل وتقویٰ اور فقروغنیٰ کو معانی اور تقویت بخشی۔روم اور فارس پر قہر الہیٰ بن کرجھپٹنے والا سپاہ سالار معزولی کا حکم سن کر عام سپاہی کی حیثیت سے لڑا۔وہ ایک ایسی قوم کا سپوت تھا جس نے چیتھڑے پہن کر بادشاہوں کی قبائیں نوچیں اور پیٹ پر پتھر باندھ کر شہنشاہوں کے تاج اُتارے مودی اُس قوم کے سپوت کو مانگ رہا ہے۔
غرناطہ کے موسیٰ اور دہلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہند کے ملک جہان خان نے بھی نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اُس نے غیرت و حمیت کا وہ رستہ اختیار کیا جو کٹھن ہے مگر بالآخر عزت کے معبد کی طرف لے جاتا ہے۔