سال پہلے ٹی وی سکرین پر ایک منظر ابھرا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک شخص کو پیش کیا جانا تھااس موقعہ پر حفاظتی انتظامات اتنے سخت تھے کہ چڑیا کو بھی پر مارنے کی تاب نہ تھی قیدی کو بکتر بند گاڑی میں کئی گاڑیوں پر مشتمل قافلہ کی حفاظت میں لایا جارہا تھا بکتر بند گاڑی کے نمودار ہوتے ہی نہ جانے کہاں سے کچھ سیاسی کارکن جمع ہو گئے جو نعرے بازی کرنے لگے۔
پولیس لاٹھیاں پکڑے ان کی طرف لپکی وہ سب کے سب ادھر ادھر غائب ہوگئے یہ ڈرامہ کئی بار دہرایا گیا پولیس والے مطمئن اس لئے تھے کہ کارکنوں کی تعداد توقع سے بھی کم تھی۔ عدالت کے احاطہ میں بکتر بند گاڑی رکتے ہی میڈیا سے وابستہ فوٹو گرافروں اور رپوٹروںمیں کھلبلی سی مچ گئی اپنے ہی پسینے میں شرابور قیدی کو گاڑی سے نیجے اتارا گیا قیدی نے میڈیا کے لوگوں کو دیکھ کر بازو بلند کیا، ہاتھ لہرایا۔
مسکرانے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی مسکراہٹ پھیکی پھیکی رہی۔۔یہ” قیدی ”میاں نواز شریف تھے جن کی انسداد ِدہشت گردی کی عدالت میں یہ پہلی پیشی تھی ایک منتخب وزیر ِ اعظم کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی ابتداء کہ انہیں جس بکتربند گاڑی میں لایا گیا اس میں نارمل انداز میں بیٹھنا بھی مشکل تھا پھر کچھ عرصہ بعد اس قیدی کو پورے خاندان کے ساتھ جلاوطن کر دیا گیا اس کے بھائی نے وطن واپس آنے کی کوشش کی تو لاہور ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔
کچھ وقت گذرا جلاوطنوں پر ایک اور قیامت ٹوٹی اس خاندان کا سربراہ اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملا لیکن خاندان کے کسی فردکو اپنے بزرگ کی تدفین کیلئے وطن واپس آنے کی اجازت نہ ملی خود تیسری بار وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والا آج تک اس سوچ میں گم ہے کہ اتنا تکبر ۔۔ اتنا غرور اتنی فرعونیت اور اقتدار کا اتنا نشہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام تر اخلاقی اقدار بھی فراموش کر دی جائیں لوگوں کو مکے دکھا دکھا کر ڈرایا جائے اور اس کے ساتھی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں اور اس ہاں کو مفاہمت کی سیاست کا نام دیا جائے۔۔
Democracy
سیاستدانوں کی اس ادا نے آمریت کی دہلیز پر جمہوریت کو ذبح کرکے رکھ دیاشاید اسی طرزِ عمل کے باعث پاکستان میں نصف صدی سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان ٹوم اینڈ جیری کا کھیل کھیلا جارہا تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء آن پہنچا اس روز جمہوریت پرآمریت سکالی لیپ بن کر گرا اور نہ صرف ہیوی مینڈیٹ رکھنے والی جمہوری حکومت ختم کردی گئی بلکہ منتخب وزیر ِ اعظم کو اہل ِ خانہ اور انکے درجنوں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
پرویز مشرف نے قوم اور سیاستدانوں کو مکے دکھا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ماضی میں جب بھی ڈکٹیٹرو ں نے جمہوریت کو فتح کیا بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ہی کبھی فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے خط لکھے کبھی ان کا بھر پور ساتھ دینے کااعلان کیا پرویز مشرف کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے سب سے خوبصورت باتیں چوہدری پرویز الہی کیا کرتے تھے انہوں نے تو متعدد بار جنرل صاحب کو دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کروانے کااعلان کر ڈالا لیکن سومیٔ قسمت سے ان کی خواہش اور پرویز مشرف کی حسرت پوری نہ ہوئی جونہی ڈکٹیٹر نے اپنی کھال نما وردی اتاری آسمان ہی ان کا دشمن ہو گیا اقتدار اتنی ناپائیدار چیز ہے۔
ماضی کے تمام دوست آج پرویز مشرف کا حال تک پو چھنے کے روادار نہیں یقینا اس صورت ِ حال میں سابق صدر المعروف ڈکٹیٹر یہ شعر اکثر گنگنا تے ہوں گے کچھ حال کے مخلص ساتھی ہیں کچھ ماضی کے عیار سجن احباب کی چاہت کی کہیے ،کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے موصوف ان دنوں جس مصیبت میں مبتلاہیں اللہ معاف کرے ایسے حالات میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے بندوں کا کیا بھروسہ؟ انسان ہے کہ مکافات ِ عمل کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا صرف حال بارے فکر مند رہنااس کا وطیرہ ہے۔۔
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مشرف کے معاملہ میں ہماری آنکھوں کے سامنے تاریخ دہرائی جارہی ہے میاں نواز شریف کو مرحوم والدکی تدفین کیلئے وطن واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اب پرویز مشرف کو اپنی والدہ محترمہ اور اپنے علاج کیلئے دبئی جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ ایک وقت تھا سارے اختیارات پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھے ان کا ہر فرمان قانون تھا عدالتوں کے حکم کے باوجود میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو پھر جلاوطن کر دیا گیا آج تو حالات ایسے ہیں کہ سابق صدر نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
انہیں انصاف کی توقع ہے۔۔۔ امید ہے بلکہ یقین ہے۔۔ پرویز مشرف نے شریف فیملی کے ساتھ جو کچھ کیا میاں نواز شریف نے اسے معاف کر دیا ہے لیکن سابق ڈکٹیٹرکے دو گناہ ناقابل ِ معافی ہیں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے کے باوجود پاکستان کو پرائی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں آگ اور خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے پرائی جنگ کے اثرات سیاست، معیشت ، معاشرت پر اس قدر غالب ہیں کہ سب کچھ تلپٹ سا ہو گیا ہے۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا کے مصداق سنبھلنے کی کوششوں میں مسائل ہیں کہ الجھتے ہی جارہے ہیں۔۔۔ دوسرا کارگل ایڈونچر جس کی وجہ سے اقوام ِ عالم میں پاکستان کی سبکی ہوئی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر افواج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں کیا جا سکتا ہے اور پوری پاکستانی قوم اپنے وطن کے دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے افواج ِ پاکستان نے بھی ہمیشہ ہر مشکل وقت میں قوم کو کبھی ما یوس نہیں کیا سیاست میں آنے سے ان کی کارکردگی متاثر ہونے کااحتمال رہتا تھا قوم کی خواہش کے پیش ِ نظر ہماری عسکری قیادت نے اپنے آپ کو پیشہ وارانہ مصروفیات کو بہ احسن و خوبی پورا کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند بھی ہے۔
تاریخ ساز بھی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے موصوف پاکستان سیاست میں حصہ لینے آئے تھے لیکن لینے کے دینے پڑ گئے اب مشرف کمبل چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہے کہ انہیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا عدالت میں انہوں نے بڑے دکھ کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ میں نے ملک کی خدمت کی پھر بھی غدار کہا جارہا ہے مجھے خدمات کا کیا صلہ ملا؟۔۔۔
سابق جنرل کو کوئی صلہ ملے یا نہ ملے ایک بات سچ ہے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے تاریخ کیا فیصلہ دیتی ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن میاں نواز شریف نے کارگل کے معاملہ پر ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کااعلان کیا تھا اس کا کیا بنا؟کسی کو خبر نہیں۔۔۔مگر حالات یہ خبر بتا رہے ہیں کہ آخر کار پرویز مشرف کو جلد بیرون ِ ملک جانے کی اجازت مل جائے گی۔۔
شنید ہے کہ اس وقت مشرف کی روانگی کے تناظر میں حکمران جماعت میں تقسیم در تقسیم ہے کئی وزراء کا خیال ہے کہ مشرف کے ساتھ جو کچھ ہو گیا وہی کافی ہے اب اس کیس سے جان چھڑا لینی چاہیے تاکہ کسی مشکل کے بغیر سکون سے مدت پوری کرلی جائے۔ کچھ کا کہنا ہے پرویز مشرف کی عدالت ِ عظمیٰ میں پیشی نے ثابت کر دیا ہے کہ آئین اور قانون سے کوئی بالا تر نہیں ان کے اس اقدام نے منظر نامہ واضح کر دیا ہے سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر فرد ِ جرم لگنے کے بعد ان کی دبئی جانے کے چانسز بہت زیادہ ہیں شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاک سر زمین کو خیر باد کہہ دیں یار دوبارہ قسمت ازمائیں۔ اب لگتا ہے آمریت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ہے افراد کی بجائے اداروں کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
خداکرے ایسا ہی ہو۔ تاریخ بتاتی ہے پاکستان میں آج تلک کوئی آرمی چیف انتخابات کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کامیاب نہیں ہوا ویسے بھی سیاست پرویز مشرف کیلئے بھاری پتھر ثابت ہورہی ہے ان کی پارٹی صحیح معانوں میں تانگے کی سواریوں پر مشتمل ہے ان کو تو نعرے لگانے کیلئے کارکن تک دستیاب نہیں۔ ووٹوں کے ذریعے وزیر ِ اعظم بننا کسی دکٹیٹر کیلئے اتنا بھی آسان نہیں البتہ سوتے جاگتے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں عین ممکن ہے پرویز مشرف کی وزیر ِاعظم بننے کی خواہش۔۔
زندگی بھر کی حسرت بن جائے حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے ابھی تو ڈکٹیٹرکو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیںدور دور تک کوئی دوست ہے نہ غمخوار۔۔۔ حکومت نگوڑی علاج کیلئے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ دل میں وسوسے سر اٹھارہے ہیں کہ خدا جانے کیا بنے گا؟ ڈکٹیٹر گم سم بیتے دنوں کو یاد کر کے دل بہلانے کیلئے یہ گانا گنگنا تاہوتا بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے خدا سب کو اس تنہائی با مشقت سے بچائے۔