ویسے تو ہر مذہب ہی اولاد کی بہترین پرورش کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ وہی اولاد ایک اچھے معاشرے کی بنیاد رکھ سکے، ایک بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے وہی سے وہ بچہ اپنا پہلا قدم اٹھاتا ہے اور زندگی میں ڈور درھوپ کے لئے خود کو تیار کرتا ہے۔ آج میں آپکو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں،یہ بات ہے کراچی شہر کے ایک لڑکے کی، اسکے والد ایک نجی بینک میں نوکری کرتے ہیں، والدہ گھر پر ہوتی ہیں ، ٢ چھوٹے بھائی ہیں جنمیں سے ایک پاکستان کی آرمی میں ہے جبکہ دوسرا ابھی اسکول میں ہے۔وہ لڑکا اپنے گھر کا بڑا بیٹا ہے۔
شروع سے ہی بہت لائق طالب علم رہا،اسکول،پھر کالج میں اپنی قابلیت منوائی پھر جامعہ کراچی کے شعبہ کمپییوٹر سائنس میں بی۔ایس BS میں اچھی نتیجے کے ساتھ فارغ و تحصیل ہوا۔اس نے اپنی تعلیم کو یہی پر خیرباد نہ کہا بلکہ وہ اپنے والدین کی تربیت اور ان کی انتھک محنت کا حق ادا کرنا چاہتا تھا، لہذا اس نے مزید آگے پڑھنے کا سوچا، اور ساتھ ہی ایک اچھی نوکری کی تلاش میں لگ گیا مگر شاید اﷲ نے اس کی تقدیر میں کچھ مزید انتظار لکھ رکھا تھا ،یوں نوکری کی تلاش میں تین سال کا عرصہ گزر گیا۔
وہ اپنی ہی فیلڈ کے حساب سے نوکری کا متلاشی تھا جب اسکو مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ کسی نیوز چینل میں کوشش کرے کیا معلوم اﷲ کوئی زریعہ بنا دے،اس دوران اس نے پاکستان کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے نیوز چینل میں اپنی سی ویCV میں بھیج دی، کہیں تو وہ خود گیا تو کہیں پر اس نے انٹرنیٹ کے زریعے بھیجی الغرض اس نے اپنا مستقبل میڈیا چینل سے منسلک کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھالیا۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک نیوز چینل کی طرف سے کال آگئی،وہ لڑکا بہت خو ش تھا کہ اب اسے اپنی منزل صاف نظر آنے لگی تھی، اﷲ کا نام لیکر وہ گھر سے انٹرویو کے لئے نکلا، آفس میں قدم رکھا تو اسی سوچ کے ساتھ کہ آج خود کو ثابت کرنا ہے۔ بہرحال اچھے انداز میں اس طرح سے انٹرویو لیا کہ سب آفیشلز خوش تھے، اور قریب تھا کہ نوکری اسے مل بھی جاتی لیکن پھر اچانک سے آفس کے اس کمرے میں ایک سر آئے تو انھوں نے یہ کہہ دیا کی آپ جا ستکے ہیں ،ہم آپ کو کال کرکے بتا دیں گے۔اس وقت اس لڑکے پر کیا گزری ہوگی وہ صرف اﷲ ہی جانتا ہے۔
خیر وہ واپس گھر آگیا اور اسی انتظار میں دن گزرنے لگے کہ شاید کال آجائے مگر افسوس وہ انتظار انتظار ہی رہا، پھر اچانک سے کچھ دن بعد اس لڑکے کو کچھ انجان نمبرز سے کال آئی کہ میں اسی چینل کا ایک ملازم ہوں آپ کا نمبر میں نے آفس ریکارڈز سے خفیہ طور پر نکالا ہے۔
Education
اور اس نے سی وی پر لکھے نام،ولدیت ، شناختی کارڈ نمبر اور گھر کا اڈریس بتا کر دھمکیاں دینا شروع کردیں ،نا جانے وہ بندہ کس بغض اور عداوت کا شکار تھا جو اس نے ایسا کیا،مگر پھر کچھ دن بعد دوبارہ کال آئی اسی نام کے بندے کی مگر اس بار نمبر مختلف تھا لیکن دھمکی وہی پرانی والی ایک آدمی جو اپنی تعلیم حاصل کرکے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو، اسے نوکری کا غم الگ پھر اوپر سے یہ دھمکیاں، محترم قارئین بہت تکلیف دہ بات ہوتی ہے ،لیکن جس ملک میں قانون بنانے والے خود ہی قانون شکنی کرتے ہوں تو وہاں یہ سب عام بات ہے۔
کچھ دن بعد معلوم کروایا گیا تو کال کرنے والے کا نمبر کے متعلق تمام انفارمیشن مل گئیں مگر اس لڑکے نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کال کرنے والے شخص کو معاف کردیا اور اپنا معاملہ اﷲ کے سپرد کردیا ۔مگر وہ لڑکا غمگین رہنے لگا،اس کے والدین بھی یہ دیکھ کر پریشان رہنے لگے،کچھ ہر د ن گزرے تھے کہ وہ لوگ اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور جا کر رہنے لگے۔
اگر وہ لڑکا چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا، اس کے والد کی بہت پہچان ہے جبکہ اسکا بھائی پاکستان آرمی کا حصہ ہے،مگر ماں باپ کی یہ عظیم تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ حق پر ہونے کے باوجود بھی بدلہ تو دور، بلکہ کھلے دل سے معاف کر دیا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جہاں کہیں بھی ہم نوکری کے لئے کوشش کر رہے ہیں وہاں ہمارے جمع کیے گئے ضروری کاغذات محفوظ ہیں بھی یا نہیں؟اس بات کا جواب دینا قدرے مشکل ہے، میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ یہ کام ہر جگہ ہورہا ہے،مگر ہر معاشرے میں جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں برائی بھی موجود ہے،ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا تاکہ مستقبل میں عوام کو اس مصیبت کا سامنے نہ کرنا پڑے۔یہاں ایک ذمہ داری ان چینلز پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس نظام کو محفوظ بنائیں اور اپنے ریکارڈز کو غلط اس دھمکی دینے والے شخص کے جیسے عناصر سے دور رکھیں، کیونکہ یہ وہ کیس ہے۔
جسکی وجہ سے اس ادارے کی عزت دائو پر لگ سکتی ہے اور پولیس اور عدالت تک بات جاسکتی ہے،آج اس نے اس لڑکے کی سی ویCVنکالی ہے، کون جانتا ہوگا کہ اس نے یہ کام پہلے نہ کیا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی وہ یہی سب کرے، تو بہتر ہے کہ ادارے اپنے اندر کی سیکیورٹی کو مضبوط بنائیں اور ایسے غیر ذمہ دار ورکرز کو نکال باہر کری۔
وہ لڑکا تو ایک شریف خاندان کا تھا، یہی اگر کوئی تیڑھے دماغ کا انسا ن ہوتا وہ دھمکی دینے والا شخص تو جاتا ہی، ساتھ میں ادارے کی عزت بھی سڑک پر لے آتا۔اور اگر ایسا کرتا بھی تو کچھ غلط تو نہ ہوتا ،لیکن معاف کردیا اس سے اخلاق سامنے آگیا ورنہ فرق باقی نہ رہتا۔قارئین کرام سے نہایت ادب کے ساتھ میری گزارش ہے کہ اپنے ضروری کاغذات، اپنی اسناد کسی غیر متعلقہ فرد کو نہ دیں ، ورنہ کہیں آپ کے ساتھ بھی ایسا نہ ہوجائے۔
یہ ان اداروں کے لیے لمحئہ فکریہ ہے ایسے قبیح فعل انکے اداروں میں اس انداز میں ہورہے ہیں جبکہ کسی بھی ملک میں حکومت،فوج، اور عدلیہ کے بعد میڈیا ہی ہوتا ہے جو ملک کی تصویر دنیا کے آگے رکھتا ہے،لہذامیری ان اداروں کے مالکا ن سے گزارش ہے کہ … ذرا سوچئے۔