شام: صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ جاری

Syria

Syria

شام (جیوڈیسک) میں سخت سیکیورٹی انتظامات کی نگرانی میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ جاری ہے جبکہ حزب اختلاف نے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ شام میں یہ صدارتی انتخاب تین سال کی خانہ جنگی کے بعد ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں۔

ملک بھر میں ساڑھے نو ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے کھلے اور شام سات بجے تک وہاں ووٹنگ جاری رہے گی جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ اگر ووٹروں کی تعداد زیادہ ہوئی تو اس میں چار پانچ گھنٹے کا مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

انتخاب میں صدر بشار الاسد کی کامیابی کے زبردست امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اگر وہ یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ تیسری بار سات سال کے لیے ملک کے صدر ہو جائیں گے۔ بہر حال شامی حکومت کے ناقدین نے اس انتخاب کو ’دھوکے اور فریب‘ سے تعبیر کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت اس انتخاب کو بحران کے حل کے طور پر پیش کرنے کی جدو جہد میں لگی ہوئی ہے۔

کئی دہائیوں میں پہلی بار بیلٹ پیپر پر ایک سے زیادہ نام نظر آ رہے ہیں۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دوسرے دو امیدوار ماہر حجار اور حسن النوری کو شام میں زیادہ لوگ نہیں جانتے ہیں اور وہ صدر بشارالاسد کی سطح پر انتخابی مہم چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

اس سے قبل صدر کا انتخاب ریفرینڈم کے ذریعے ہوتا رہا ہے جس میں الاسد خاندان کے لوگوں کا نام ہی بیلٹ پیپر پر ہوتا تھا۔صدارتی انتخاب کے لیے سرکاری طور پر مہم پیر کو ختم ہو گئی اور وسطی دمشق کے تمام علاقوں سے امیدواروں کی تصاویر، پوسٹرز اور بینرز ہٹا لیے گئے۔

وزیر اعظم وائل الحلقی نے کہا کہ ’انتخاب کا دن شام کے لیے تاریخی دن ہے اور کثیر تعداد میں ووٹروں کی آمد دنیا کو یہ ثابت کر دے گي کہ شام کی عوام نے فیصلہ کر لیا ہے اور وہ انتخابی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے پابند ہے۔‘

انھوں نے شام کی عوام سے اپیل کی کہ وہ ایسے صدر کا انتخاب کریں جو ’ملک کے لیے سلامتی اور استحکام حاصل کر سکے اور قومی مصالحت حاصل کرنے کے لیے کوشش تیز کر سکے۔‘ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ملک میں ڈیڑھ کروڑ اہل ووٹرز ہیں جو شام اور شام کے باہر رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کے اس انتخاب کے لیے ملک کے طول و عرض میں ساڑھے نو ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

ادھر ووٹنگ صرف ان علاقوں میں ہوگی جو حکومت کے کنٹرول میں ہیں جبکہ کئی علاقے ایسے جہاں یا تو باغیوں کا قبضہ یا پھر اس علاقے کے کنٹرول کے لیے حکومت اور باغی برسرپیکار ہیں۔