الطاف حسین پولیس کی حراست میں طبی معائنے کے لیے ہسپتال منتقل

Altaf Hussain

Altaf Hussain

لندن (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں منگل کی شام کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

میٹروپولیٹن پولیس جو قانونی وجوہات کی بنا پر الطاف حسین کا نام ظاہر نہیں کر رہی اُس نے شام کو اپنی ویٹ سائٹ پر کہا کہ گرفتار کیے جانے والے ساٹھ سالہ شخص کو پولیس کی حراست میں طبی معائنے کے لیے ایک ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

پولیس نے مزید کہا ہے کہ طبی معائنے کی تاریخ پہلے سے طے تھی اور معائنے کے دوران مذکورہ شخص پولیس کی حراست میں ہی رہے گا۔

الطاف حسین کو تھانے منتقل کیے جانے کے بعد شام گئے تک پولیس کے اہلکار ان کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔

قبل ازیں ایم کیو ایم نے منگل کی صبح لندن میں قائد تحریک الطاف حسین کو حراست میں لے کر مرکزی لندن کے ایک تھانے میں منتقل کیے جانے کی خبر تصدیق کی تھی۔

ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفی عزیز آبادی نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے کیس میں حراست میں لیا گیا اور پھر انھیں مزید پوچھ گچھ کے لیے مرکزی لندن کے تھانے منتقل کر دیا گیا۔ مصطفی عزیز آبادی نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے ہمراہ وکلاء کی ٹیم ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس کئی گھنٹوں تک الطاف حسین کی رہائش گاہ پر موجود رہی اور گھر کی تلاشی بھی لی گئی۔

واضح رہے کہ الطاف حسین کی عمر ساٹھ سال ہے اور وہ نوے کی دہائی کے اوائل سے لندن کے اسی علاقے میں مقیم ہیں جہاں یہ کارروائی کی گئی۔

یاد رہے کہ چند ماہ قبل لندن پولیس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں انسداد دہشت گردی کے یونٹ نے الطاف حسین کے دفتر پر پہلا چھاپہ چھ دسمبر سنہ دو ہزار بارہ کو پولیس اینڈ کرمنل ایویڈنس ایکٹ کے تحت مارا تھا۔

اس چھاپے کے دوران دفتر سے نقد رقم برآمد ہوئی تھی۔ پولیس نے اس رقم کے بارے میں مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی تھی تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ یہ رقم پروسیڈ آف کرائم ایکٹ کے تحت قبضے میں لے لی گئی۔

ولیس نے اٹھارہ جون دو ہزار تیرہ کو شمالی لندن کے دو گھروں پر چھاپہ مارا تھا۔ یہ چھاپہ پولیس اینڈ کرمنل ایکٹ کی دفعہ آٹھ کے تحت مارا گیا تھا اور اس میں پولیس نے ’قابل ذکر‘ مقدار میں رقم قبضے میں لی تھی۔ پولیس نے سرکاری طور پر ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ رقم کتنی تھی۔

چند ماہ قبل بی بی سی کے پروگرام نیوزنائٹ میں بی بی سی کے نامہ نگار اوون بینیٹ جونز نے ایم کیو ایم کے قائد کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ ان کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے علاوہ، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کراچی میں پارٹی کارکنوں کو تشدد پر اکسانے کے الزامات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے چار ہزار افراد سے بات چیت کی تھی۔

برطانوی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے باضابطہ طور پر پاکستانی حکام سے ان دو افراد کی تلاش کا بھی کہا تھا جو مبینہ طور پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں برطانیہ کو مطلوب ہیں۔ حال ہی میں ان کی تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں۔

لندن میں میٹروپولیٹن پولیس متحدہ قومی موومنٹ کے کئی بینک اکاونٹ منجمد کر کے ٹیکس نہ دینے کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہی تھی۔

ایم کیو ایم ان تمام الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن الطاف حسین نے اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں کہا تھا کہ لندن پولیس نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

الطاف حسین نے حال ہی میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو کارکن یاد رکھیں کہ ان کا قائد بےگناہ تھا اور بےگناہ ہے۔

ایم کیو ایم کے قانونی ماہر بیرسٹر فروغ نسیم نے بی بی سی کے پرواگرم ’نیوز نائٹ‘ میں پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر عمران کا قتل پارٹی کے مخالفین کی سازش یا کوئی رہزنی کی واردات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

کراچی اور حیدر آباد سکتے میں پاکستان کے مقامی نیوز چینلز پر متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی مبینہ گرفتاری کی اطلاع پر کراچی کے تمام کاروباری و تجارتی مراکز بند ہوگئے ہیں جبکہ سی این جی اور پیٹرول پمپ نے بھی کاروبار معطل کر دیا ہے۔

غیر یقینی جیسی صورتحال میں ہر شخص نے گھر کا رخ کیا، جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بعض علاقوں میں شدید فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ہنگامی پریس کانفرنس طلب کرلی گئی ہے، جس میں آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بھی تمام دکانیں اور بازار بند ہو چکے ہیں۔ جگہ جگہ ٹائر جلائے جا رہے ہیں، مختلف علاقوں میں شدید ہوائی فائرنگ جاری ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو چکی ہے، شہر میں جاری امتحانات کو اچانک منسوخ کرد یا گیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے وجہ سے لوگ پیدل ہی گھر جا رہے ہیں۔