گزشتہ روزیہ خبر سامنے آئی کہ ایک 60 سالہ پاکستانی نڑاد شخص کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ لندن پولیس ملک کے قانونی تقاضوں کے مطابق گرفتار شدہ شخص کا نام ظاہر نہیں کرتی لیکن گرفتاری کے ساتھ ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس کے اثرات کراچی کے بازاروں اور اسٹاک ایکسچینج میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کراچی میں سکول فوری طور پر بند کر دئیے گئے اور تمام امتحانات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
ہر شخص نے فوری طور پر گھر پہنچنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے شہر کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے متعدد لوگوں کو پیدل کئی کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے گھر پہنچنا پڑا۔ اس خبر کے نتیجے میں کراچی کے علاوہ حیدر آباد اور سکھر سمیت کئی شہروں میں بھی دکانیں اور بازار فوری طور پر بند کر دئیے گئے۔ تادم تحریر صورتحال نہایت بے یقینی کا شکار ہے۔لندن میں ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کی گرفتاری کے بعد پورے پاکستان پر سناٹا طاری ہے۔ کراچی میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے اور متحدہ کی قیادت بے یقینی کا شکار ہے۔ اگرچہ اس گرفتاری کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں لیکن یہ بتایا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت نے شروع میں الطاف حسین کی گرفتاری کی تردید کرنے کے بعد بالآخر شام تک یہ تسلیم کر لیا کہ تحریک کے قائد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت نے پارٹی کے کارکنوں سے پرامن رہنے اور تشدد کا مظاہرہ نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس کے باوجود فوری طور پر بڑی تعداد میں کارکن نائن زیرو پہنچ گئے جہاں انہوں نے اس وقت تک دھرنا دینے کا اعلان کیا جب تک الطاف حسین کو رہا نہیں کیا جاتا۔ بعد میں ان مظاہرین کو پرانی نمائش کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ جہاں مظاہرہ اور دھرنا جاری ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ الطاف حسین کی رہائی تک احتجاج کیا جائے گا۔
کراچی پولیس نے فوری طور پر شہر میں قائم برطانوی قونصل خانے کی حفاظت کے لئے اس کے اردگرد سب سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا تھا۔ اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن نے اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ یہ گرفتاری لندن میٹرو پولیٹن پولیس کا معاملہ ہے۔ اس لئے ہائی کمیشن اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ اس بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں کراچی میں برطانوی قونصل خانہ عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت سب سیاسی رہنماوں نے اس گرفتاری پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس گرفتاری کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے مختصر تبصرے میں کہا ہے کہ یہ معاملہ نہایت حساس ہے۔ حکومت اس بارے میں تمام ممکنہ قانونی اقدام کرے گی۔ انہوں نے اپنی کابینہ اور پارٹی رہنماوں کو اس مسئلہ پر بیان بازی سے بھی منع کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر خورشید شاہ نے اعلان کیا کہ ایم کیو ایم ہماری حلیف جماعت ہے اور اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی الطاف حسین اور ان کی پارٹی کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ انہوں نے وزیراعظم پر زور دیا کہ اس معاملہ پر انہیں برطانوی حکومت سے رابطہ کرنا چاہئے۔
Altaf Hussain
لندن میں الطاف حسین کی گرفتاری سے اگرچہ حیرت اور استعجاب کی صورت پیدا ہوئی ہے لیکن یہ حراست غیر متوقع نہیں ہے۔ لندن پولیس گزشتہ ڈیڑھ برس سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل ، منی لانڈرنگ اور کراچی میں پارٹی کارکنوں کو تشدد پر اکسانے کے الزامات کی تفتیش کر رہی تھی۔ چند روز پہلے پارٹی کے ایک رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا تھا کہ لندن پولیس نے الطاف حسین کے اکاونٹ منجمد کر دئیے ہیں۔ الطاف حسین خود کئی مرتبہ کارکنوں کو یہ بتا چکے تھے کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔
کارکن پرامن جدوجہد جاری رکھ کر ہی ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔رات گئے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ لندن پولیس نے الطاف حسین کو محض بیان ریکارڈ کرنے کے لئے مختصر مدت کے لئے حراست میں لیا ہے یا ان پر الزامات کی نوعیت اتنی شدید اور ثبوت اس قدر ٹھوس ہیں کہ اب ان کا معاملہ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق الطاف حسین کی طرف سے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
اس کا یہ مطلب ضرور ہو سکتا ہے کہ الطاف حسین کو کچھ عرصہ یا مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک زیر حراست رکھا جائے۔ وہ برطانوی شہری ہیں، اس لئے جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں برطانیہ میں ہی سزا بھگتنا ہو گی۔یہ گرفتاری چونکہ برطانیہ میں عمل میں لائی گئی ہے اور لندن پولیس اس معاملہ کی تفتیش کر رہی ہے لہٰذا برطانوی حکومت اس کارروائی پر کسی قسم کا سیاسی اثر و نفوذ استعمال نہیں کر سکتی۔ ایم کیو ایم کی طرف سے اگرچہ برطانیہ کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
اس گرفتاری کو وہ کسی نہ کسی طرح کسی سازش کا حصہ قرار دینے کی کوشش کرے گی لیکن عام طور سے لوگ اس دلیل سے متفق نہیں ہوں گے۔ مغربی ممالک میں سیاسی ضرورتوں اور تقاضوں کو نظام عدل سے اس حد تک علیحدہ کر دیا گیا ہے کہ پولیس کی کارروائی پر سیاسی انتقام کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔الطاف حسین سے تمام تر اختلافات اور ان کے طرز سیاست کو مسترد کرنے کے باوجود اس مشکل مرحلہ پر ایم کیو ایم کے ساتھ وسیع پیمانے پر ہمدردی کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تاہم یہ اظہار افسوس الطاف حسین کی گرفتاری کے بارے میں ہے، اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس حراست کو ظلم و زیادتی قرار دیا جائے یا یہ مان لیا جائے کہ عالمی طاقتیں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ اسی لئے پاکستانی سیاستدانوں نے بھی تبصرہ نہ کرنے کا رویہ اختیار کیا ہے۔
بلاشبہ ایم کیو ایم میں اس گرفتاری پر شدید غم و غصہ پیدا ہو گا۔ اس پارٹی کے سارے معاملات الطاف حسین کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ انہیں سیاسی لیڈر سے بڑھ کر ایک پیشوا یا گرو کی حیثیت دی گئی ہے۔ اسی لئے اس پارٹی میں کوئی کراون پرنس نہیں ہے۔ اگر الطاف حسین اس گرفتاری کے نتیجے میں طویل عرصہ کے لئے منظر نامہ سے غائب ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کو اگرچہ قومی اسمبلی کی ساڑھے تین سو نشستوں میں صرف 23 نشستیں حاصل ہیں اور سندھ اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ پارٹی چونکہ کراچی اور سندھ کے بڑے شہروں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کے ارکان پارٹی قائد سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، اس لئے اس پارٹی کا سیاسی وزن اور اثر و رسوخ اس کو حاصل ہونے والی نمائندگی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خاص طور سے ایم کیو ایم نے بارہا اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ مختصر نوٹس پر کراچی کو بند کر سکتی ہے اور وہاں پر کاروبار زندگی معطل کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسی خوف کی وجہ سے الطاف حسین کی گرفتاری کے ساتھ ہی کراچی کی گلیاں ویران ہو گئیں۔ البتہ اب ایم کیو ایم کی قیادت کو نہایت ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے امن و امان بحال رکھنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ انہیں چاہئے کہ وہ احتجاج کو علامتی رکھیں اور سول زندگی کو تہہ و بالا نہ ہونے دیں۔ کراچی میں طوفان اٹھانے سے برطانیہ میں الطاف حسین کی لیگل حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور نہ ہی لندن کی پولیس اور عدالتیں اس سے خوفزدہ ہو کر اپنی حکمت عملی تبدیل کریں گی۔ تاہم غلط طور سے اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں ایم کیو ایم اپنے لئے اور کراچی کے لئے ضرور مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
الطاف حسین کے قد کے لیڈر کی منی لانڈرنگ جیسے جرم میں گرفتاری ایک قومی المیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ برطانوی پولیس کے پاس ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہوں گے۔ یہ گرفتاری جمہوریت اور قانون کی عملداری کا یہ حسین پہلو سامنے لاتی ہے کہ کوئی شخص اپنی حیثیت اور قد کاٹھ کی وجہ سے قانون سے بالا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھیانک تصویر بھی دکھاتی ہے کہ اس ملک کے رہنما اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں کس قسم کے جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو دل جمعی سے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے قانونی لڑائی لڑنی چاہئے۔ اگر اس حراست کو سیاسی دنگل میں بدلنے کی کوشش کی گئی تو الطاف حسین کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جائے گا۔