اسلام آباد (جیوڈیسک) سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حالیہ حملوں سے یہ سوال پھر سر اٹھانے لگا ہے کہ کیا طالبان دوبارہ منظم ہورہے ہیں اور کیا مذاکراتی عمل اپنے انجام کو پہنچ گیا۔فتح جنگ میں پاک فوج کے افسران پر خودکش حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرلی تو پھر جنگ بندی کہاں گئی۔ حکومت طالبان مذاکرات کھٹائی میں پڑ گئے ۔ دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی آگئی ، جس میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پارسے بھی حملے ہورہے ہیں۔
گذشتہ روز باجوڑ میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر سرحد پار سے ہوئے تین حملوں میں سات سیکیورٹی اہلکار شہید اور سات زخمی ہوگئے جبکہ فتح جنگ کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا ، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرلی۔ اس حملے میں پاک فوج کے دو لیفٹیننٹ کرنل سمیت پانچ افراد شہید ہوئے ،یہی نہیں بلکہ مذاکراتی عمل کے دوران بھی دہشت گرد حملوں کے واقعات دیکھنے میں آئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے حملوں کے بعد دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ٹارگٹڈ کارروائیاں کیں۔
ایسی صورتحال میں اب جبکہ سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی محسوس ہوتی ہے اور مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہے اور طالبان دھڑوں میں آپس کے اختلافات ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی لڑائیاں بھی سامنے آچکی ہیں اور ملا فضل اللہ سے اختلاف رکھنے پر خان سید سجنا اپنا گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الگ کرچکا ہے۔
حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ مذاکرات صرف ان سے ہوں گے جو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ لڑنے والوں سے انہی کی زبان میں بات ہوگی۔ اس صورتحال نے آنے والے وقت کا ممکنہ نقشہ تو سامنے رکھ دیا ہے لیکن پھر بھی اصل صورتحال کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔