پسند کی شادی جب موت کا سبب بنی

Abida Parveen

Abida Parveen

جنوبی پنجاب کے خطہ میں عورت ہمیشہ مظلومیت کا کردار رہی ہے کہیں اُسے ”ونی ”کی فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے تو کہیں وہ ”کالی ”کے نام پر موت کے گھاٹ اُتر رہی ہے الغرض ایک ظلم کا تسلسل ہے جو اُس کی ذات کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے چوک اعظم شہر جنوبی پنجاب کے اُن شہروں میں سے ایک جہاں آئے روز کسی نہ کسی انسان کا قتل ایک معمول ہے۔

اسلام سے دوری نے بھی ہمیں ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے کہ ہم مادر پدر آزاد معاشرے کی فرسودگی سے جان چھڑانے سے قاصر ہیں عابدہ پروین کا جنم تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا بستی حسین آباد پھلر ون میں غلام حسین کے گھر ہوااُس کے ننھیال کا تعلق چوک اعظم سے ہے اس کی والدہ کانام سکینہ بی بی ہے۔عابدہ پروین سن بلوغت کوپہنچی تواسکااپنے ننھیال آناجانا شروع ہوگیا۔

بالآخروہ اپنے ماموں اللہ بخش جوکہ چوک اعظم کارہائشی ہے کے پاس مستقل رہائش اختیارکرلی۔چھ سال قبل وہ ایک روزجب اپنے میکے سے رابطہ کرنے کے لیے ایک پی سی اوپرپہنچی تواس کی ملاقات وارڈنمبرگیارہ کے رہائشی مقصوداحمدولدحاکم علی جٹ بریال سے ہوئی۔پہلی ملاقات تسلسل میں بدلی۔اوربالآخرمقصودنے اپنے پی سی اوپرعابدہ پروین کوجاب دے دی۔مستقل ساتھ محبت میں بدل گئی۔ اوربالآخرشادی پرمتنج ہوا۔ اس دوران مقصودکے دوبچے بھی ہوئے۔اب کہانی ایک نیا رخ بدلتی ہے۔

عابدہ پروین کے بھائی مختاراحمد کے بقول میری بہن کا پلاٹ چوک اعظم میں تھا جسے مقصودنے چارلاکھ میںبیچااورابوظہبی چلاگیا۔اس طرح عابدہ پروین مقصوداحمدسے ناراض ہوکرکراچی میں اپنے ماموں کے پاس بھینس کالونی قاسم ٹائون چلی گئی۔جہاں اس کے ماموں نے ایک اورمکان لے کرعابدہ پروین کے نام کرالیا۔دوسال بعد جب مقصود چوک اعظم واپس لوٹا۔تو اسے اپنی بیوی اوربچوں کی یادآئی ۔ جنہیں لینے کے لیے وہ کراچی چلاگیا۔بالآخروہ اپنی بیوی کورام کرتے ہوئے۔مقصوداحمدنے کراچی والا پلاٹ بھی بارہ لاکھ میں فروخت کردیا اورچوک اعظم میں گاڑیوں کا شوروم بنا لیا۔

Maqsood

Maqsood

واضح رہے کہ عابدہ پروین سے محبت کی شادی کرنے سے قبل مقصود کی ایک اور بیوی بھی تھی۔ جس سے اس کے چار بچے تھے۔ عابدہ پروین دوبارہ جب گھر آئی۔ تو گھر میں تو تکار رہنے لگی۔ جس سے مقصودزچ ہوا۔ اور بالآخراس نے سولہ مئی دوہزارچودہ کو اپنی بیوی عابدہ پروین صوفیہ ہوٹل سے کھانا کھلانے کے بہانے اور گردے چیک کر انے کے بہانے کار پربٹھایا اور صوفیہ ہوٹل پرلے آیا۔ اب مقصود اپنی کہانی اس طرح سناتا ہے کہ اس نے بازار سے جاکر اپنی بیوی کو کھانا کھلایا۔

صوفیہ ہوٹل پرگپ شپ کی۔ جب اندھیراچھا گیا توگاڑی کودھوری اڈہ کی طرف موڑدیا۔ اس دوران اس نے 81کی چارگولیاں پیپسی کی بوتل میں ملاکرعابدہ پروین کوپلادیں۔ گجر سٹاپ پرگاڑی مغرب کی طرف موڑدی۔ اوربیوی کوپیارکیا۔اوراسے کہا کہ تم قمیض اتاردو۔جب اس نے قمیض اتاری تواس وقت وہ پوری اتاری۔ میںنے اسے سینہ میں پستول سے گولیاںماریں۔ جس سے وہ تڑپ تڑپ کرمرگئی۔ میںنے اس کا خون بھی صاف کیا اورارادہ کیا۔ کہ مظفرگڑھ کی طرف جاتے ہوئے جوبڑی نہرآتی ہے اس میں اسے پھینک دوں۔مگراس خوف کی بناپراپنے ارادے کوترک کردیا۔کہ راستے میںکہیں پکڑانہ جائوں۔ اس لیے اسے وہیں نہر میں پھینک دیا۔

یہ علاقہ تھانہ پیرجگی کاتھا۔ جس کے مہتمم سیدجعفررضا بخاری اوراے ایس آئی عمرفاروق نے کئی روزکی انتھک محنت اورتحقیق کے بعد اصل قاتل کواپنی گرفت میں لے لیا۔تھانہ پیرجگی میں زیرحراست مقصود نے بتایا کہ دونوںمکان میرے اپنے تھے۔ اورمیںنے عابدہ پروین کواس لیے ماراکہ اس کے میرے بھائی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔

مجھ سے پہلے ہی انہوںنے لاہورکے ایک آدمی کواپنے پاس رکھا تھا۔اورجب میں گھرسے باہرہوتا توعابدہ پروین موبائل سے وہ سم نکال دیتی جس سے میرے ساتھ رابطہ رہتا۔ ایک اورسم سے غیرمردوں سے کال کرتی۔بالآخرمحبت کی شادی موت کے انجام کی شکل میں اپنے انجام کو پہنچی۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر: ایم آر ملک