مائی بھاگاں اُن چند لوگوں میں شامل ہے جو استطاعت سے بڑھ کر دوسروں کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں اور اس شرکت کے بعد اُن کے دل سے حقیقی خوشی پھوٹتی ہے اور چہرے پر آکر لوسی دینے لگتی ہے۔ مائی بھاگاں کا تعلق لیہ کے نشیبی علاقہ کی ایک بستی سے ہے۔ اُس کی سخاوت، انسان دوستی اور حقوق العباد کی کہانیاں دور دور تک بکھری ہوئی ہیں۔
بستی کے دیگر مکینوں کی طرح مائی بھاگاں اپنے گھر کا نظام بمشکل چلا پاتی ہے۔ نشیبی علاقہ کی زمین زرخیزی کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔مائی بھاگاں کی زرعی اراضی صرف تین ایکڑ ہے اُس کی بستی میں گو خوشحالی نہیں تھی مگر دیہی علاقہ کی سادہ زندگی ہوس وحرص سے آزاد ہوتی ہے اور لوگ پُرسکون رہتے ہیں۔ اس لیے مائی بھاگاں کی زندگی بھی قناعت سے بھرپور گزر رہی تھی اس تھوڑی سی اراضی پر اُس کا خاوند اپنی محنت سے سبزی کاشت کرتا تھااور قریبی شہر میں دے آتا۔
مائی بھاگاں کے پڑوس میں کالو مہانہ کا گھر تھا جس کا روزگار کشتی سے جڑا ہوا تھا وہ کشتی کے ذریعے لوگوں کو دریائے سندھ کے آر پار اُتارتا اور گزر بسر کرتا۔اُس کے گھر کی دیواریں مائی بھاگاں کے گھر سے جڑی ہوئی تھیں، بستی کے کچے مکانوں کی دیواریں اتنی بلند نہ تھیں، چھوٹی چھوٹی چاردیواریاں جس سے ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنوں کو سُنا اور محسوس کیا جا سکتا تھا۔
دیواروں کا حصار قائم نہیں تھاتو دلوں کے ربط قائم تھے، محبت و اخوت کی روشنی تھی،عزت داری برابر کی ہوتی تھی اور عزت پر آنچ آنے کے عہد بھی برابر کے ہوتے تھے 2010 کے سیلاب کی آمد سے ایک ماہ قبل ایک رات مائی بھاگاں بچوں کے ساتھ صحن میںسوئی ہوئی تھی کہ اچانک اُس کی آنکھ کھل گئی اُس نے کالو مہانہ کے گھر سر سراہٹیں محسوس کیں ،مائی بھاگاں نے پوری توجہ دی تو کالو مہانہ کی سرگوشی سماعت سے ٹکرائی وہ کسی سے کہہ رہا تھا ،”جب تک پیسوں کا بندوبست نہیں ہوتا تم نے کسی کو نہیں بتانا کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے جب کسی سے پیسے اُدھار لے آئوںتب بستی میںا علان کرانا۔
یہ سُن کر مائی بھاگاں کی روح تڑپ اُٹھی کہ بستی میں ایک باسی کی ماں مر گئی ہے اور کفن دفن کے اُس کے پاس پیسے نہیں ہیں، کالو مہانہ کی بے بسی پر اُس کے اند ر طوفان سا آگیا ،وہ رات کے اندھیرے میں چپکے سے اُٹھی گھر میں جو کچھ بچت کیے پیسے تھے وہ الگ کیے خاوند کو ساتھ لیا اور بستی میں جو لوگ مالی پوزیشن بہتر رکھتے تھے اُن کے گھروں پر دستک دی،اظہار یہ کیا کہ میرا بچہ بیمار ہے صبح صبح اُسے لے کر شہر کے ہسپتال جانا ہے پیسوں کی اشد ضرورت ہے ،مائی بھاگاں کے احسانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور احترام و یگانگت کی ریت نبھاتے ہوئے بستی کے لوگوںکے پاس جو کچھ تھا اُنہوں نے مائی بھاگاں کو دے ڈالا، بھاگاں کے اپنے پاس جو بچت تھی دوسرے پیسوں کے ساتھ ملا کر وہ کالو مہانہ کے دروازے پر صبح ہی صبح جا پہنچی کالو ابھی گھر میں تھا۔
Flood Relief Camp
مائی بھاگاں بولی میں نے تمہاری باتیں سُن لیں،یہ لو پیسے اور ماں کے کفن دفن کا بندوبست کرو، تمہیں اپنی پریشانی کا اظہار پڑوسی ہونے کے ناطے ہم سے ضرور کرنا چاہیے تھالیکن کالو سر جھکانے کے سوا کچھ نہ کہہ سکا، مائی بھاگاں کی بستی میں اپنائیت تھی، وارفتگی تھی، بے ساختگی تھی اور وہ لہجے تھے جو فاصلوں کو سمیٹ لیا کرتے ہیں 2010 کا سیلاب آیا تو اپنی خوفناکی اور ہولناکی کے ساتھ مائی بھاگاں کی بستی کا سب کچھ بہا کر لے گیا، بستی کے مکینوں کو زندگی میں پہلی بار ہجرت کا عذاب سہنا پڑا اور وہ ٹکڑوں میںبٹ کر سماجی تنظیموں اور حکومت کی طرف سے لگائے گئے فلڈ ریلیف کیمپوں میں محصور ہوکر رہ گئے۔مائی بھاگاں جو دوسروں کے دکھ سکھ میں اُن کا مداوا کرتی جس کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں کو دینے کیلئے اوپر رہتے وہ ہاتھ نیچے آ گئے۔ مگر مائی بھاگاں کا لُٹنے کے باوجود وہ جذبہ سلامت رہا جو دُکھی انسانیت کے لیے وقف ہوتا ہے وہ لائن میں لگی دوسرے بھوکے لوگوں کے لئے روٹی اور سالن لیتی نظر آتی وہ کیمپ انچارج کو اُن بچوں کا دکھ باور کراتی جو دودھ نہ ملنے سے اپنی مائوں کی آغوش میں رات بھربلکتے، اس سیلاب نے اپنی خوفناکیوں کی جہاں یہ تصاویر کھینچیں وہاں آنسوئوں سے بھری آنکھیں دیکھنے کو ملتیں جن میں بے بسی کے آنسو ہوتے جن کا ہر روز سو چوں کی زد میں ہوتا، جو قید نہ ہونے کے باوجود خود کو پابندِ سلاسل سمجھتے۔ حالات کی تلخی کی زد میں ایسے لوگ بھی آگئے جو سحر زدہ کیفیت میں کڑی دھوپ سہتے ہیں، دوسروں کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں لیکن خود کس حال میں ہوتے ہیں یہ بتانے سے معذور رہتے ہیں۔
مائی بھاگاں اُنہی انسانوں میں سے ہے جن کے اندر دوسروں کا درد جاگتا ہے، ٹیسیں سہتے ہیں،خود مسلسل گھٹن کا شکار رہتے ہوئے سینے میں دھواں بن کر چھا جانے والی باتیں کسی سے نہیں کہتے،اپنی فیاضی کو محبت کا نام دیتے ہیں،احساسات کا در کھلا رکھنے والے یہ لوگ اپنے لیے کتنی زیادہ اذیتیں سمیٹ لیتے ہیں، دوسروں کے دکھ لمحہ لمحہ جن کا خون چوستے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ گھٹن جب بڑھ جاتی ہے تو شاید مائی بھاگاں جیسے لوگ ہی تازہ ہوا کا جھونکا ہوتے ہیں۔