وائٹ ہائوس میں اسلام اور بسم اللہ کی گونج

Taliban

Taliban

طالبان کی قید سے رہائی پانے والا امریکی سارجنٹ بووی رابرٹ برگیڈال جرمنی سے ڈی این اے جانچ کے بعد جیسے ہی امریکا پہنچے گا وہاں کا ماحول اپنے خلاف پائے گا، جہاں اس کے کورٹ مارشل کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پانچ اہم طالبان رہنمائوں کی رہائی کے بدلے برگیڈال کو امریکی حکام کے حوالے کرنے کے اِس اقدام کو افغان طالبان اپنی عظیم فتح قرار دے چکے ہیں جبکہ امریکی کانگریس، میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے اسے گھاٹے کا سودا قرار دینے پر اوباما دوہری مشکلات کا شکار ہیں۔

ایک اخبار نے تو یہ تک انکشاف کر دیا کہ اوباما نے امریکی سارجنٹ کی رہائی کیلئے قطر انتظامیہ کے توسط سے حقانی نیٹ ورک کو پچاس لاکھ ڈالر تاوان بھی ادا کیا ہے اور جلتی پر تیل کا کام اُس ویڈیو نے کیا جو برگیڈال کی حوالگی کے وقت طالبان نے خفیہ طریقے سے بنائی۔ یہ ویڈیو پوری دنیا میں امریکا کی جگ ہنسائی کا باعث بنی کہ خود کو سپر پاور کہلانے والا امریکا کس بے بسی کے ساتھ اپنے فوجی کو طالبان سے وصول کر رہا ہے۔ بووی رابرٹ برگیڈال جتنا عرصہ طالبان کی قید میں رہا اس کے ساتھ انتہائی بہترین سلوک روا رکھا گیا جو پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔

پانچ سال تک حراست میں رہنے والے اِس امریکی فوجی نے خود کو طالبان کے طرزِ زندگی کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا تھا اور علاقے کی روایت کے مطابق قہوے کا شوقین ہو گیا۔ اس نے اپنے اغواء کار طالبان کو بیڈمنٹن کھیلنا سکھایا اور انگریزی بھُول کر پشتو اور دری زبانیں بولنے لگ گیا جبکہ کوئی محسوس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ امریکی ہے یا کوئی مقامی افغان باشندہ ۔ اس دوران طالبان نے برگیڈال کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی کوشش بھی کی لیکن ساتھ ہی اُسے کرسمس اور ایسٹر جیسے مسیحی تہوار منانے کی اجازت بھی دیتے رہے۔

دوسری طرف دیکھیں تو یہی برگیڈال اگر نام نہاد پاکستانی ظالمان کی قید میں ہوتا تو کیا یہ شخص بچ جاتا یا پھر اسے ذبح کرکے اس کو چیل کوئوں کی خوراک بنا دیا جاتا اور اس کی کھوپڑی کو اس کے دھڑ سے جدا کرکے اس سے فٹ بال کھیلا جاتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی طالبان میں بھی اکثریت حقیقی طالبان کی ہے لیکن چند مخصوص جعلی طالبان گروپ اِن حقیقی اور اصلی طالبان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان جعلی پاکستانی ظالمان کے نزدیک پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانا جائز ہے ، کیونکہ بقول اُن کے یہ امریکا کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو کیا برگیڈال ملاعمر کو پھولوں کے ہار پہنانے آیا تھا؟

یقینا یہ فوجی پھولوں کے ہار پہنانے نہیں بلکہ افغان طالبان کے خلاف لڑنے اور ان کا خاتمہ کرنے ہی آیا تھا۔ امریکی فوجی کے ساتھ طالبان کے بہترین سلوک نے مغربی خاتون صحافی یووون رڈلے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور یووون ریڈلے کو سفری دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ دورانِ قید اس خاتون نے قرآن کا مطالعہ کیا اور طالبان کے کردار کا نزدیکی سے جائزہ لیا۔

Quranic Teachings

Quranic Teachings

رہائی کے بعد اس نے قرآنی تعلیمات اور طالبان کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ طالبان کی قید سے رہا ہونے کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یووون ریڈلے نے کہا کہ اسلام دشمنی مجھے افغانستان لے گئی تھی مگر اب اسلام میری آخری تمنا بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکر ہے میں طالبان کی قید میں تھی، اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال بھی گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا۔ یہ تبدیلی طالبان پر عورتوں کے حقوق غصب کرنے کا الزام عائد کرنے والوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ تھی۔

افغانستان کی امریکی جنگ کے آخری مرحلے میں قطری حکومت کی ثالثی سے پانچ اہم طالبان رہنمائوں کے بدلے برگیڈال کی رہائی ایک اہم خبر ہے جو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی بے بسی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔ افغانستان پر تیرہ برسوں سے قابض اور جدید ترین جنگی جاسوسی ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود امریکا اپنے فوجی کو رہا نہیں کرا سکا۔ برگیڈال کی آزادی کیلئے امریکا میں بڑی بڑی تحریکیں چلیں، حکومت مخالف مظاہرے ہوئے، رہائی سے چند روز قبل برگیڈال کے خاندان نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا اور اُس کے والد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ انہیں امریکی حکومت کی حکمت عملی پر بالکل بھی کوئی یقین نہیں ہے بلکہ وہ سوچ رہے ہیں کہ خود پشتو سیکھ کر طالبان سے براہِ راست رابطہ کریں۔ یہ بات حیران کن ہے۔

جو شخص چند روز قبل تک پشتو سیکھنے کی خواہش ظاہر کرتا رہا وہ اکلوتے بیٹے کی رہائی کے فوری بعد ہی وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کاآغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرکے انگریزی کے بجائے نہ صرف پشتو میں تقریر شروع کرتا ہے بلکہ اس پریس کانفرنس میں اوباما کے بجائے ”اللہ کا شکر” بھی ادا کیا۔ اس اقدام کے بعد سے برگیڈال خاندان کو امریکا میں شدید تنقید کا نشانہ بنا کر مسلمان اور غدار قرار دیا جا رہا ہے اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بیٹے کی طرح باپ بھی مسلمان اور طالبان کا ہمدرد بن چکا ہے۔

جبکہ امریکی میڈیا بھی اوباما پر دبائو بڑھا رہا ہے کہ وہ امریکی افواج کو چھوڑ کر طالبان سے مل جانے والے مسلمان فوجی برگیڈال کی رہائی کی ڈیل واپس لیں۔ امریکی جریدے ”ملٹری ٹائمز” نے اپنی رپورٹ میں سارجنٹ برگیڈال کو فوج کا بھگوڑا قرار دے کر یہ انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں تعیناتی کے دوران برگیڈال نے کئی مواقع پر امریکی افواج کے مشن پر شدید تنقید کی تھی اور وہ طالبان کیلئے ہمدردی رکھتا تھا جس سے اس خدشے کی تائید ہو جاتی ہے کہ وہ امریکا کا مخالف اور طالبان کا حامی ہے۔

اس نے کئی مواقع پر گھر والوں کو ای میل میں لکھا کہ اسے امریکی کہلائے جانے پر شدید شرمندگی ہے، کیونکہ افغانستان میں امریکی افواج کا کردار بہت ہی شرمناک ہے۔ امریکی فوج کے متعلق ”یونیفارم کوڈآف ملٹری جسٹس” کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ برگیڈال پر غداری، دشمن کا ساتھ دینے اور کم از کم چھ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا سبب بننے جیسے سنگین الزامات ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کو ارسال کی جانے والی خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔

کہ سارجنٹ برگیڈال کی تلاش میں اطراف کے علاقوں میں بھیجے جانے والے ریسکیو مشن میں شریک امریکی فوجی مورس واکر، پی ایف سی مورس، مارٹی نیک، سارجنٹ کلے ٹن بووین، سارجنٹ کرٹ کرٹس، سارجنٹ مائیکل مرفی اور سیکنڈ لیفٹیننٹ ڈیرن اینڈریو طالبان جنگجوئوں کاآسان ہدف ثابت ہوئے اور طالبان نے گھات لگا کر انہیں قتل کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ جرمنی کے ملٹری ہسپتال میں زیر علاج سارجنٹ برگیڈال تیزی سے صحتیاب ہو رہا ہے اور نفسیاتی معالج اس کی انگریزی بولنے کی صلاحیت بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق برگیڈال پر پشتو غالب ہے۔

مگر اب اس نے کسی حد تک اَٹک اَٹک کر انگریزی بولنا شروع کر دی ہے اور جیسے ہی وہ روانی سے انگریزی بولنے کے قابل ہو جائے گا اس سے طالبان کی قید کے دوران ہونے والے حالات و واقعات بارے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ برطانوی خاتون صحافی یووون ریڈلے نے طالبان کی قید سے رہائی کے کوئی دو سال بعد اسلام قبول کیا تھا لیکن بووی رابرٹ برگیڈال کے امریکا پہنچنے سے قبل ہی وائٹ ہائوس میں اسلام کی گونج شروع ہو گئی اور بسم اللہ کی آواز اس کی دیواروں سے ٹکرا چکی ہے۔

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر: نجیم شاہ