پانی انسانی زندگی کیلئے لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر تو کسی بھی کام کا تصور ہی ممکن نہیں ۔اب یہ وہ زمانہ تو ہے نہیں کہ نہیں ایڑی رگڑی جائے اور پانی کا فوارہ نکل پڑے۔ اس لئے اس معاملے کے حل کیلئے ہمیں کاغذ قلم لے کر دماغ کے نہاں خانوں میں ابھرتے ہوئے الفاظوں کو پِرونا پڑ رہا ہے۔ شہرِ قائد میں پانی کی قلت کا مسئلہ کافی پرانا ہے، مگر اس بار گرمی کی آمد سے قبل ہی حب ڈیم کے سوکھنے کا عندیہ دے دیا گیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ شہرِ قائد میں پانی کے ناغے کا نظام رائج کر دیا گیا۔ ٹھیک ہے پانی کی کمی ہوگی تو ناغے تو ہونگے ہی ، مگر یہ کیسا ناغہ ہے کہ جس دن علاقوں میں پانی دینے کی باری آتی ہے تو واٹر بورڈ کے مجاز افسران بمعہ والو مینوں کے آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پانی چلا دیا ہے۔
مگر پریشر کی کمی ہے اس لئے گھروں تک نہیں پہنچ رہا۔ فون پر میری خود ایک واٹر بورڈ کے انجیئنرصاحب سے بات ہوئی موصوف فرماتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پانی آپ سب کو مل جائے۔ مگر نامعلوم وجوہ کی بناہ پر ان کی کوشش بھی رائیگاں ہی جاتی ہے اور اہلِ محلہ بوند بوند پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ ایسے میں سندھ حکومت کہاں ہے۔ بھائی! عوام آپ سے ایک بنیادی ضروری چیز ” پانی ” ہی تو مانگ رہے ہیں ۔ اور پانی پہنچانا آپ کا اوّلین فرض بنتا ہے۔ صرف ہائیڈرنٹس توڑنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عملے کو پابند کیا جائے کہ ہر علاقہ میں پانی پہنچایا جائے۔ والو مین حضرات کا تو یہ عالم ہے۔
وہ والو کھول کر سو جاتے ہیں۔ اب کہیں پانی پہنچے یا نہ پہنچے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اکثر جب ٹیلی فون پر والو مین صاحبان سے رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ دوسرے والو مینوں پر الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔مصطفی کمال بھائی کا بھی دور تھا اگر شکایت کی جاتی تھی تو چوبیس گھنٹوں میں اس کا ازالہ ہوا کرتا تھا مگر اب میرے اپنے گھر میں پندرہ روز پہلے لائیٹ جانے پر جنریٹر سے پانی آیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک لائینوں میں پانی دستیاب نہیں۔ لوگ منرل واٹر کی بوتلیں اور ٹینکر کے ذریعے پانی کتنا خرید سکتے ہیں۔
پوری تنخواہ پانیوں پر خرچ کر دیا جائے تو بقیہ مہینے کے دن یقینا فاقہ کشی کرنا پڑے گا۔ کیا حکومت تنخواہوں میں الگ سے واٹر الائونس دیتی ہے ۔ شاید نہیں! مگر پانی کی یہی صورتحال رہی تو حکومت کو سوچنا ہوگا کہ وہ تنخواہوں میں الگ سے پانی الائونس بھی دیں۔ جتنی بھاگ دوڑ اہلِ محلہ نے پانی کے سلسلے میں کی ہیں جس میں ناچیز میں شامل رہا ہے اس سے میں یہ نتیجہ اخذکر پایا ہوں کہ اگر واٹر بورڈ کے سب انجینئر اور خاص کر یہ والو مین حضرات چاہیں تو کسی کو بھی پانی کی شکایت نہیں ہوگی۔
Shortage Of Water
پانی کی کمی ضرور ہے مگر اس کم پانی کو بھی اگر چار چار گھنٹے مختلف والوز بند کرکے علاقوں میں پہنچایا جائے تو عوام کی پریشانی کم ہو جائے گی۔ جب لوگوں کا احتجاج سخت ہوتا ہے تو یہی لوگ پانی کس طرح گھروں میں پہنچا دیتے ہیں۔اربابِ اختیار اور حکمرانوں سے درخواست ہے کہ اس حساس معاملے کو فوری طور پر ایجنڈے میں شامل کریں اور اس پر عملی کاروائی عمل میں لائیں تاکہ اس شدید گرمی میں جب K-Electricنے لوڈ شیڈنگ کے ذریعے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے، کم از کم پانی تو مہیا ہو جائے ۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ” پانی ” دن بہ دن ایک کمیاب اور قیمتی شئے بنتا جا رہا ہے اور اس کی مانگ زیادہ ہو گئی ہے۔ پانی کی اس بڑھتی ہوئی قلت پر سنگین خطرات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ پانی کی کمیابی کے اسباب میں خود ترقی کا کتنا عمل دخل ہے یہ بات تو حقیقت ہے کہ پانی کے ضائع ہونے کو اگر نہ روکا گیا تو آج بھی اس شہرکے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ پینے کے صاف اور بے ضرر پانی سے محروم ہیں۔ پہلے ہم سُنا کرتے تھے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں اب بھی کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں سرکاری پانی مہیہ ہی نہیں ہے مگر اب تو ملک کے میگا سٹی کراچی کا یہ حال ہے کہ یہاں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں اور کوئی بھی افسر شاہی چاہے وہ واٹر بورڈ کے ہوں یا بلدیات کے عوام کی داد رسی نہیں کر رہے۔
زندگی اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ہوا کے بعد سب سے زیادہ لازمی امر پانی ہے۔ تندرستی اور صحت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ہمیں تازہ ہوا کی طرح خالص پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس طرح غلازت کے ڈھیر کے پاس ہوا آپ کی سانسوں کی طرف بڑھے اور آپ سانس لیتے رہیں تو یقینا آپ بیمار پڑ جائیں گے بالکل اسی طرح گندا اور بدبو دار پانی پینے سے بھی ہماری تندرسی بگڑ جائے گی۔ معدے اور آنتوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پروان چڑھیں گی، بد ہضمی کا ہونا عام سی بات ہے۔
دست و قے کی بیماری کے گھیرے میں آجائیں گے، ہماری زندگی میں پانی ایسا لازمی امر ہے جس کا کام ہمارے جسم میں خون کو گاڑھا اور خشک ہونے سے بچانا ہے۔ پانی ، پانی، پانی کا نعرہ شہرِ قائد کے ہر علاقے سے گونج رہا ہے مگر کیا یہ آواز حکمرانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے، یقینا پہنچ رہی ہوگی مگر اربابِ اختیار پانی جیسی بنیادی ضرورت کی اہمیت کو شاید ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں تو ان تکالیف کا سامنا نہیں ہے۔
بوتل بند پینے کا پانی انہیں بکثرت مل رہا ہے، دوسری ضروریات کے لئے بھی انہیں پانی کی تنگی کا سامنا نہیں ہو سکتا ۔ مَرتے ہے تو بیچارے عوام۔ ملک میں ڈیمز برائے نام ہی ہیں۔ اس کی زندہ مثال حب ڈیم ہے، جس کے خشک ہونے پر پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ہر کام چھوڑ کر بجلی کی پیداوار بڑھایا جائے اور نئے ڈیمز ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے۔ اب کالا باغ ڈیم کو ہی لے لیجئے ، اس پر سابق چیئرمین واپڈا اور آبی ذخائز کے ماہر انجینئر شمس الملک کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بنا کر بھارت سے زیادہ ہمارے اپنے حکمران اور سیاست دانوں نے ملک سے زیادتی کی ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پنجاب کا نہیں بلکہ واپڈا کا تجویز کردہ ہے۔
اسے قومی مفاد میں ضرور بننا چاہیئے ، یہ بات موصوف نے لاہور چیمبر میں خطاب کے دوران کہی تھی۔ اب واللہ علم کہ یہ منصوبہ سیاست کی نظر ہو گیا ہے یا واقعی اس کی ضرورت نہیں۔راقم کے خیال میں اگر مجوزہ ڈیمز کے بننے کو کوئی رکاوٹ یا دشواری ہے تو دوسرے چھوٹے ڈیمز فوری تعمیر کیا جائے کہ جس سے پانی کی اذیت ناک قلت سے دوچار عوام کو پانی میسر ہو سکے۔ آنے والے نسلوں کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ملک میں فوری چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ پانی کی اس مصنوعی قلت یا حقیقی قلت کو دور کیا جا سکے۔
پانی زندگی ہے، پانی ہے تو جہان ہے اور یہ قدرت کا انمول عطیہ ہے۔ انسانی وجود بھی پانی کے دم سے قائم و دائم ہے۔ خدارا! پانی کی اہمیت کو سربراہان سمجھیں، پانی کی اہمیت کا اندازہ وہیں ہوتا ہے جہاں اس کی قلت کا سامنا ہو، اور وہی لوگ پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جہاں پانی جیسی اس عظیم نعمت کا قحط سالی ہو۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ خدارا سندھ حکومت ، بلدیات، اور واٹر بورڈ کا عملہ اپنی آنکھیں کھولے۔ اور پانی کو گھروں میں پہنچانے کا بندوبست کرے۔ یہ عوام بھی آپ ہی کے ہیں، ووٹ بھی آپ ہی کو دیتے ہیں اس لئے درخواست ہے کہ سب بات بھلا کر اُن ووٹوں کے صدقے ہی پانی فراہم کیا جائے۔ خدا آپ کا اور اور مظلوم عوام کا حامی و ناصر ہو۔ آمین