شعور کی جھولی میں دانستہ شکست ڈال کر عوامی پذیرائی کا دعویٰ محض سراب ہوا کرتا ہے 2013 کے عام انتخابات کے پس منظر میں موجودہ حالات کی سکرین پر نہ مٹنے والی ”دھاندلی ” کی فلم میں جن اداکاروں کی واہ واہ ہوئی اور جو بھی ہیرو قرار پایا پس پردہ ہدایت کار کوئی اور طاقت ٹھہری مسلم لیگ ن کی قیادت بھاری عوامی مینڈیٹ کے زعم میں حیران مگر عوامی کنفیوژن کا سدِ باب ایسی صورت میں ممکن نہیں ہوا کرتا بھاری مینڈیٹ کے نام پر عوام کا کردار مسخ ہوا جب حقِ خود ارادیت کا قتل ہو تو اجتماعی شعور میں تبدیلی کا جنم ہوتا ہے۔
جنوبی پنجاب کے ایک معروف سیاست دان بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ مرحوم کے بیٹے اور پاکستان تحریک انصاف جنو بی پنجاب کے رہنما ء نواب زادہ منصور احمد خان جو 2013ء کے انتخابات میںحلقہ پی پی 256سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور اُن کا نتیجہ انائونس ہو گیا مگر دوسرے روز اُن کے نتائج تبدیل ہوچکے تھے اُنہوں نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کب تک عوام کے حق خود ارادیت کا قتل ہوتا رہے گا۔
عوامی رائے کو کب تک ایک مافیا سبو تاژ کرتا رہے گا ،پیسے کا کھیل کب تک الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرائے گا ؟ تخت ِ لاہور پر قبضہ کیلئے حلقہ این اے 122کے عوام کے حقِ خود ارادیت کوبھی نہیں بخشا گیا جہاں رات بارہ بجے تک عمران کی مسلسل جیت یقینی نظر آرہی تھی پھر اچانک ایک گمنام ن لیگی اُمیدوار دس ہزار ووٹوں سے فاتح اعظم قرار پایاکیا حلقہ این اے 117 نارووال میں ہونے والی دھاندلی پر آنکھیں بند کر لینی چاہئیں ؟ خود مسلم لیگ ن کے ورکرز معترف ہیں کہ ابرارالحق کے ساتھ عوام کھڑی تھی مورد الزام پیپلز پارٹی ہی سہی کیا وطن عزیز کے 53فیصد حصہ پر پانچ برس تک بلا شرکت غیرے مسلم لیگ ن کی حکمرانی کا عفریت نہیں ناچتا رہا ۔
کیا موجودہ الیکشن کا ابہام ہمیں اُس جانب لیکر نہیں جارہا جہاں عوام کی اکثریت اپنے اقرار کا فیصلہ گلیوں میں کرتے ہیں ملکی سطح پر سیاست کی جو رفتار اُبھر کر سامنے آئی اُس نے بہت سے نئے اندیشے پیدا کر دیئے ہیں انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی زندگی میں جس خوشگوار سکون اور ہمواریت کی اُمید تھی وہ ابھی تک ناپید ہے دھاندلی کے پس منظر میں اضطراب کی لہریں برابر اُٹھتی اور بڑھتی چلی جارہی ہیں شہروں میںموجودہ عوام دشمن بجٹ کیخلاف ہونے والے دھرنوں ،ہنگاموں ،ہڑتالوں سے سیاسی تصادم کے نئے امکانات نمودار ہو ں گے اپوزیشن جماعتیں نئے مخالفانہ سیاسی زاویئے بنانے میں منہمک ہیں اور اُن کے نقطہ نظر میں تنگ دلانہ مایوسی روز افزوں ہے کیا یہ صورت حال انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی جمہوریت طلب اُمیدوں اور آرزئو ں کیلئے اندیشوں اور خطرات سے خالی ہے۔
حقیقی تبدیلی کے انتظار میں عوام اُمید و بیم کی کیفیت سے دوچار ہوئے اور اس دوران ماضی کا روائتی مفاد پرست طبقہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہا مکمل نتائج کے اعلان سے قبل رات میاں برادارن کا اچانک ایک مخصوص ٹی وی چینل پر نمودار ہونا اور وکٹری تقریر کیا علم نجوم کا شاخسانہ تھا ؟ ذرائع ابلاغ پر مسلط کو رچشم عناصر اس کا میا بی پر یوں شاداں و فرحاں تھے جیسے آسمان سے کوئی وحی نازل ہو گئی۔
Imran Khan
ہو عمران خان کی تیمار داری بھی اندر کا وہ خوف تھی جو انتخابی نتائج کو سبو تاژ کرنے کی منظم سازش کے ردِ عمل کے طور پر اُبھرنے والی ممکنہ تحریک کی شکل میں پیش نظر تھا پانچ برس تک” فرینڈلی اپوزیشن” اور میثاق ِ جمہوریت کے چیمپیئنز کی کارکردگی بکائو میڈیا کی نگاہ ناز کا شکار رہی میاں برادران کے راتب پر پلنے والے قلمکار اُن کی ادائوں پر جی جان سے قربان ہوتے رہے پانچ سالہ فرینڈلی دور ِ قہر مانی نے ملت کی آنکھیں کھولیں عوامی اکثریت اور نسل نو عزم ِ جواں لیکر اُٹھی مگر 11مئی غنڈہ گردی ،دھاندلی کا وہ ڈرامہ رچایا گیا کہ ناانصافی بھی سر پیٹ کر رہ گئی نتائج کوبد لنے کا وہ مکروہ ،شرمناک اور انسانیت و اخلاق سوز کھیل کھیلا گیا کہ الا مان اور یہ کارن اُس وقت ہوا جب قوم نے اپنے ووٹ اور رائے کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا وطن عزیز کے ایک سرے سے دو سرے سرے تک جس طرح ووٹ کی تقدیس پامال کی گئی ،بیلٹ بکس تبدیل کیئے گئے ،تھوک کے حساب سے ووٹوں کی پرچیاں بھری گئیں اُس نے الیکشن کمیشن کی غیر جانبدار پر کالک مل دی۔
7 مارچ 1977 کے انتخابی نتائج کو بھی قوم نے ماننے سے انکار کر دیا صرف 19نشستوں کے نتائج سبو تاژ ہوئے تو اُس تحریک نے جنم لیا جس کی مثال بر صغیر میں مشکل سے ملے گی اما م الہند مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا ”تاریخ کی کوئی زبان بند نہیں کر سکتا وہ جو سبق دیتی ہے وہ صرف ایک قسم کا ہوتا ہے۔
دنیا میں بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں انسان جانتا ہے اور ماننے کیلئے مجبور ہو تا ہے تاہم اُن کی صدائوں کو سننا پسند نہیں کرتا چاہتا ہے کہ لوگوں کی زبان سے اُن کو سنے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اِن سب حقیقتوں کی آواز سننے پر مجبور ہو جاتا ہے اور زبان سے اُٹھتی ہوئی صدائیں نہیں بلکہ واقعات کے ہجوم سے پیدا شدہ طاقتیں اُس کے کانوں کو کھول کر بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج کی طرح سب کچھ بتا دیتی ہے۔