ہانگ کانگ (جیوڈیسک) یہ مقولہ عام ہے کہ موت سے کسی کو فرار نہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانوں کے لئے جہاں رہائشی منصوبے بنائے جاتے ہیں وہیں قبرستانوں کے لئے بھی باقاعدہ جگہیں مختص کی جاتی ہیں لیکن ہانگ کانگ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں مردوں کے لئے قبر کی جگہ انسانوں کی رہائش گاہوں سے بھی مہنگی ہیں۔
ہانگ کانگ دنیا کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جہاں کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ زمین کی قلت کے سبب 1970ء کی دہائی سے یہاں مستقل قبروں پر مکمل پابندی ہے، سرکاری قبرستانوں میں موجود قبروں کی باقیات کو 6 سال بعد تلف کر دیا جاتا ہے تا کہ نئے مردوں کی تدفین کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ 70 لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں ہر سال 40 ہزار افراد اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ جن میں سے کچھ اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کے بعض رشتہ دار اپنے مدفون رشتہ داروں کی باقیات جلانے پر رضامند ہو جاتے ہیں لیکن اس طرح بھی مر جانے والوں کی بہت کم تعداد کو قبر نصب یوپاتی ہے جس کی وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ اب قبر کی 6 سالہ الاٹمنٹ کے لئے باقاعدہ قرعہ اندازی ہوتی ہے۔
ہانگ کانگ میں بعض گرجا گھروں کے نجی قبرستان بھی ہیں، ان میں اگر جگہ دستیاب ہو تو قبر بنانے کی اجازت مل جاتی ہے مگر ایک خطیر رقم ادا کرنے کے بعد موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام نے اپنے پیاروں کی باقیات کو جلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ 2013ء میں مرنے والے افراد میں سے 90 فیصد کو ان کے ورثاء کی خواہش پر نذر آتش کر دیا گیا۔
قبرستانوں کی طرح وہ مقامات جہاں نذرآتش کی جانے والی لاشوں کو راکھ رکھی جاتی ہے، وہ بھی تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی مثال اس سے لی جا سکتی ہے کہ عبادت گاہ میں استھیوں کےلئے 43 اسکوائرانچ جگہ ملتی ہے جو 80 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر کے مساوی ہےاور اگر اسے پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو اس کی مالیت 10 کروڑ 16 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔