صوفی حکیم ریاض احمد شہید

Allah

Allah

گزشتہ چند دنوں سے بوریہ فقر پر بیٹھنے والے ایک مردِ درویش کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر تعلیمی اور دیگر مصروفیات ہمیشہ آڑے آجاتی تھیں وہ لوگ یقینا انسانی معاشرے کے ماتھے کا جھو مر اور انسانیت کا وقار ہو تے ہیں جو خدمت خلق کے ساتھ ساتھ خالق کی بندگی کا فریضہ بھی احسن انداز سے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں آج کے اس ما دیت زدہ دور میں روحانی اقدار کے احیاء کے لیے جدو جہد کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہو تے ہیں یہ وہ دور ہے کہ جس دور میں رب کی بندگی اور خدمت انسانیت کی بات کرنا گو یا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھاجا تاہے۔

دُکھیاروں کی بھلائی ہو یابے سہاروں کی راہنمائی اس بے ریا اور بے لوث جذبوں کے حامل مرد در ویش نے شب و روز دیوانہ وار کام کیا اور اتنا کام کیا کہ ,,خدمت،، کو بھی ان پر رشک آنے لگا تھا، میں نے تو ان کو اپنی شعوری زندگی میں ہمیشہ فروغ دین اور خدمت انسانیت ہی میں کمر بستہ دیکھا تھا ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر ہر وقت انسانیت کے مفاد کے لیے سو چنا یہ کسی کسی کا خاصہ ہو تا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ گوجرانوالہ (ٹھکر کے وڑائچ )میں صُبح سے لے کر رات گئے تک دور دراز سے آئے ہوئے دُکھوں کے مارے اور ڈھونڈتے سہارے بے کس و بے چَس لو گوں کو سہارا مہیا کرنا اور ان کے اندر فروغ دین کا جذبہ پیدا کرنا یہ محض رب تعالیٰ کے فضل کے بغیر نا ممکن تھااور جن پر رب کریم کا خاص فضل ہو جائے وہ پھر زندگی کے کسی میدان میں بھی شکست نہیں کھاتے اور کام یابی و کامرانی ان کی دہلیز پر ہا تھ با ندھے کنیزوں کی طرح کھڑی ہو تی ہے۔

رب کریم کا فضل اور ہے اور ,,فضلِ کریم ،، اور ہے ۔وادی خدمت انسانیت کے بے لوث اور بے غرض مکیں ، بوریہ فقر پر بیٹھے ولی کامل جناب حکیم ریاض احمد شہید رحمة اللہ علیہ ، خلیفہ مجاز برکت العصر حضرت صوفی برکت علی لدھیانوی والہانہ جذبوں سے لیس ہو کر محض رب تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے شب و روز مصروف عمل رہے پہلوانوں کی د ھرتی کا سپوت جس نے آندھی و طوفان ،گرمی و سردی ،دھوپ و چھا ئوں ،شام و سحر اور شب روز کی پر واہ کیے بغیر اپنے سر پر ایک ہی دھن سوار کیے رکھی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے اور بے سہارا انسانیت کا سہا را کیسے بنا جا سکتا ہے ؟پانچ دریا ئو ںکی سر زمیں پنجاب ہو یا رحمن با با کی دھرتی خیبر پختونخواہ ،شاہ عبد الطیف بھٹائی کا مسکن سندھ ہو یا محبتوں کی آما جگاہ بلوچستان ،مقبوضہ وادی ہو یا آزادخطہ، جنابِ پیر صاحب نے ہر جگہ خدمت انسانیت کے جھنڈے گا ڑھے اوراپنا آپ منوایا ،یقینایہ بہت بڑا کام ہے اور ابھی تک کسی بھی پیر اور خانقاہ نے اس پہلو پر کام تو در کنار سوچا بھی نہیں ہے کہ بے سہارا انسانیت کے لیے کچھ کر گزریں ،اس با برکت اور با سعادت کارِ خیر کی خیرات یقینا جناب ِ حکیم ریاض احمد شہید کی جھو لی میں آنی تھی اور انہو ں نے اس سو غات اور خیرات کو سمیٹنا تھا سو انہوں نے خوب سمیٹا اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عقبیٰ کو بھی سنوار ڈالا ,,یہ بلند رتبہ جسے ملنا تھا اسے مل گیا ،، عزم و ہمت کا یہ کا ررواں نہ تو ابھی رکا ہے اور نہ ہی تھما ہے ،اپنے دل میں عشق رسول ۖ کی لگن اور اہلبیت کرام کی محبت کی جوت جگائے اور اولیاء اللہ کی عقیدت کی چمک اپنی پیشانیوں پر سجائے خدمت انسانیت کا یہ عظیم کاررواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔سیاستدانوںکی بے راہ رو جواں نسلیں او ر پیروں کی بگڑی اولادیںخدمت انسانیت تو کجا انسانیت کا وجود بھی اپنی دہلیز پر بر داشت نہیں کر پاتیں اور اپنے آپ کو ماورائی مخلوق تصور کرتے ہو ئے خوامخواہ کے زعم ِبد میں مبتلا ہو تی ہیں حالانکہ یہی ما فوق الفطرت مصنوعی مخلوق اسی انسانیت کے ٹکڑوں پر شب وروز زندگی بسر کرتی ہے اگر مریداپنے پیروں کو نوٹ کے نذرانے دینے اور عوام سیاستدانوں کو ووٹ کے نذرانے دینے بند کر دیں تو انہیں دن کو تا رے نظر آنا شروع ہو جا ئیں گے ،مگر جب ہم قبلہ حکیم صاحب کے شب وروز خدمت انسانیت اور فروغ دین میں صرف ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو دل سے دعا نکلتی تھی کہ ,,اے رب قدیر ،تو اس شخصیت کو اپنی حفظ و اماں میں رکھ ،،عاجزی و انکساری کا مرقع اور خلوص کا پیکر یہ سپوت اگر شام کو”مشاہدہ حق ” میں مصروف نظر آتا تھا تو دن کو تسبیح و تہلیل کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت میں مگن دکھا ئی دیتا تھالگتا ہے کہ پیرصوفی برکت علی لدھیانوی نے اپنے روحانی لخت ِ جگر کی تر بیت ہی اس انداز سے کی تھی کہ انہوں نے ان میں غرور ، تکبر ،نخوت اور کبر نام کی کوئی چیز پیدا نہیں ہو نے دی اور ہو نا بھی ایسا ہی چا ہیے کہ سجا دہ نشینوں کی رو حانی اور نسبی او لادوں کو عجز و انکساری کا مر قع ہو نا چا ہیے بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کی اولاد میں عجز و انکساری پا ئی جا تی ہے ،پیر صوفی برکت علی لدھیانوی کیو نکہ خود عجز و انکساری کے سا نچے میں ڈھلے ہو ئے تھے اور آگے ان کے مُرید میں بھی یہ خاصیت نظر آتی تھی کیونکہ حضرت حکیم ریاض احمد شہید فنا فی الشیخ تھے۔

اگر پیر صوفی برکت علی لدھیانوی کی گر دن میں 8 انچ کا موٹا سریا ہو تا تو جناب حکیم ریاض احمد شہید صاحب بھی گر دن پھلا کر اور اکڑا کر چلتے مگر میں نے تو ان کو جب بھی دیکھا ہے وہ تواضع اور انکساری کی حالت میں ہی ملے ہیں اور ہمیشہ ان کو مسکراتے ہی دیکھا گیا ہے ،ایسے ہی لوگ سسکتے اور دم توڑتے معاشرے کے لیے غنیمت ہو تے ہیں ،اگر ہما رے مو جو دہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی گر دنوں سے موٹے موٹے سریے نکل جائیں اور اپنے آپ کو عا جزی کا پیکر بنا لیں تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں مگر یہاں تو ہر سیاستدان اپنی اپنی جگہ فرعون اور قارون بنا بیٹھا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی اب عوام کے اندر بھی کبریت کے جراثیم پیدا ہو نا شروع ہو گئے ہیں اور اب عام آدمی سے بھی بات کر لو تو وہ سانپ کی طرح پھن پھیلائے اکڑ کے بات کرے گا اور ذرا ذرا سی بات پر اپنا چہرہ بلا وجہ سرخ کر لے گا ،حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مو جودہ معاشرے میں روا داری ،اخوت ،بھا ئی چارے ،حسن سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی خیرات تقسیم کی جائے۔

Gujranwala

Gujranwala

ہم سب کے لیے وہ دن بہت بھیانک ثابت ہوا جب مورخہ 2 جولائی بروز سوموار صبح سوا پانچ بجے گوجرانوالہ علی پور روڈ نزد اڈا ڈوگرانوالہ پر انسانیت کے ساتھ عرصہ دراز سے وحشیانہ سلوک اور معصوم بچیوں کی عزتوں کی پامالی کرنے والے چند درندہ نما انسانوں نے 70 سالہ صاحب ِ تفسیر،40اسلامی کتابوں کے مصنف عالم باعمل درویش منش اور خداترس شخصیت علامہ حکیم محمد ریاض احمد مرکزی کنوینیئر تحریک نفاذ القرآن پاکستان کوروزہ کی حالت میں بڑی بے دردی اور سفاکیت سے شہید کر دیا اور اُن کے جوان سالہ بیٹے امام مسجد حکیم ِصوفی محمد اعجاز احمد کو اندھا دھندفائرنگ کرکے گولیوں سے چھلنی کر دیا اور بڑے آرام سے جائے واردات سے فرار ہوگئے ، عالم باعمل قبلہ حکیم محمد ریاض احمد شہید رحمة اللہ علیہ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ قوم کی یتیم ،بے سہارا اور اِن درندہ نماانسانیت کے ظلم کا شکار بیٹیوں کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے علاقہ میں حق کی آواز بلند کیا کرتے تھے اوراِ ن درندہ نما اور سفاک انسانوں کو غریب ، بے سہارا اور یتیم بچیوں پر ظلم کرنے سے روکا کرتے تھے جس کا یہ رسہ گیر ، ظالم ، شراب و زناکے رسیابرا منا جاتے تھے ،قبلہ حکیم ریاض احمد شہید رحمة اللہ علیہ نے معذوری کی حالت میں بھی کبھی نماز ِ تہجد تک قضا نہیں کی تھی اور ہمیشہ ، مظلوم ، دکھی اور ظالموںکے ظلم سے ستائی معصوم انسانیت سے پیار کیا اور اُن کی ہر قسمی اخلاقی ، قانونی ، مالی مدد کی ، یہ داستان بھی آپ کو سناتے ہوئے ہمارا جگر پھٹتا اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آج سے چار سال پہلے 27رمضان المباک کو عصر کے وقت روزہ کی حالت میں اِنہی وحشی درندوں نے اپنے گینگ کے سربراہ کی سر براہی میں جنابِ حکیم ریاض احمد شہید رحمة اللہ علیہ کی دونوں ٹانگیں توڑنے کے بعد اُن کو شدید مضروب کیا تھا اورہم نے اپنے درویش صفت اس عظیم صوفی بزرگ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل کرایا تھا۔

بہر حال قبلہ حکیم ریاض احمد شہید دکھی انسانیت کے لیے ایک ”مسیحا ” کی حیثیت رکھتے تھے اور نماز پنجگانہ کے ساتھ ساتھ نماز تہجد اور چاشت و اشراق بھی با قاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے اور ہر دم اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھا کرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ”جو دم غافل ، سو دم کافر ” آج آپ کا سالانہ عرس مبارک خیالی بائی پاس افتخار کالونی نہایت ہی تزک و احتشام سے منایا جا رہا ہے اور آپ کے جانشین قبلہ حکیم صوفی محمد اعجاز احمد دامت بر کاتہم العالیہ عرس مبارک کی نگرانی فر ما رہے ہیں۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
فون نمبر: 03314403420