کراچی (جیوڈیسک) پاکستانی فلم انڈسٹری کے تاریخ ساز ہیرو سید موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار 25 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لولی وڈ کے پہلے سپر سٹار ہیرو کا تعلق اترپردیش کے انتہائی تعلیم یافتہ اور باعزت گھرانے سے تھا۔ سنتوش کمار نے حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی سے آئی ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
تاہم اس کے بعد سرکاری ملازمت کرنے کی بجائے اداکاری کے شعبے کا انتخاب کیا اور قیامِ پاکستان سے قبل انہوں نے 1947 میں پہلی فلم ‘اہِنسہ’ میں کام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئے اور 1950 میں سنتوش پہلی پنجابی فلم ‘بیلی’ میں جلوہ گر ہوئے۔ اسی سال انہوں نے پاکستان کی پہلی اردو سلور جوبلی فلم ‘دو آنسو’ میں ہیرو کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
تقسیمِ ہند کے فوراً بعد پاکستانی فلم انڈسٹری کو جو اہم ترین چہرہ نصیب ہوا تھا وہ سنتوش کمار ہی کا تھا، انہیں یقیناً پاکستانی فلمی صنعت کا مردِ اوّل قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن پچاس کے عشرے میں صبیحہ خاتم اور سنتوش کمار نے کئی فلموں میں اکٹھے کام کیا تھا مثلاً، غلام، رات کی بات، قاتل، انتقام، حمیدہ، سرفروش ،عشقِ لیلیٰ، وعدہ، سردار، سات لاکھ، حسرت، مکھڑا، دربار وغیرہ۔
اِن میں وعدہ اور سات لاکھ ایسی فلمیں ہیں جن کی شوٹنگ کے دوران صبیحہ خانم اور سنتوش کمار ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اور بالآخر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ سنتوش کمار پہلے ہی شادی شدہ تھے لیکن جمیلہ نامی گھریلو خاتون نے ان کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہ کیا اور آخری دم تک اْن کی دونوں شادیاں قائم و دائم رہیں۔
پاکستان کا پہلا نگار ایوارڈ بھی فلم ‘وعدہ’ کیلئے سنتوش کے حصے میں آیا، وہ اپنے دور کے ایک اور معروف ہیرو درپن اور فلم ڈائریکٹر سید سلیمان کے بھائی تھے۔ سن 1950 سے 1982 تک چوراسی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والا پاکستان کا یہ تاریخ ساز فنکار 11 جون 1982 کو چھپن سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ تاہم سنتوش کمار کا فن اور اعزازات ہمیشہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ رہیں گے۔