وطن عزیز پاکستان کو ناجانے کس کی نظر لگی کہ عالم اسلام میں واحد ایٹمی قوت اور کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا جانے والا خطہ ارض پاکستان آئے روز اندرونی اور بیرونی سازشوں کا نہ صرف مرکز بن گیا بلکہ شاید ہی کوئی ایسا علاقہ بچا ہو جہاں پر دہشت گردوں نے اپنی کاروائیاں نہ کی ہوں۔
ہمارے ملک میں عام شہریوں کے علاوہ سکیورٹی پر معمور جوانوں پر آئے روز حملے ایک روٹین بن چکے ہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت جب قائم ہوئی تو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور انکی کابینہ نے تحریک طالبان سے مذاکرات کرکے وطن عزیز میں امن لانے کی نوید پوری قوم کو سنائی۔
چنانچہ حکومتی اور طالبان کمیٹیاں قائم کی گئیں اور مذاکرات شروع کر دیے گئے۔خلوص نیت سے شروع کیے جانیوالے مذاکرات کی کامیابیوں اور جنگ بندیوں کے اعلانات ہوئے تو عوام نے سکھ کا سانس لیا۔مگر وقت کیساتھ ساتھ پھر مذاکرات میں تعطل اور حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کیخلاف سخت رویہ نہ اپنانے کیوجہ سے اب ایک مرتبہ پھر ملک کو دہشت گردی کی آگ میں لپیٹا جا رہا ہے۔ہر طرف خوف ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔دہشت گردوں کی کاروائیاں تیز ہو گئی ہیں۔
کراچی ائیر پورٹ پر سکیورٹی اہلکاروں سمیت 28افراد لقمہ اجل بنے اور وزیر اعظم کی جانب سے اس المناک واقعہ کی مذمت کی گئی تو حکومتی ترجمان پرویز رشید نے بھی حسب معمول چپ کا روزہ توڑتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں ۔دہشت گردوں سے انہی کی زبان سے بات کی جائیگی۔حکومتی رٹ پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی بولے اور کہا کہ مذاکرات بے سود اور وقت کا ضیاع ہیں۔وزیر داخلہ بے حس ہو چکے ،دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیا جائے۔موصوف وزیر دفاع خواجہ محمد آصف جن پر پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی بھی ذمہ داری ہے فرماتے ہیں کہ کراچی حملہ میں ملوث دہشت گردوں کو انکے ٹھکانوں پر جواب دینگے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی قوم کو تلقین کی کہ وہ متحد ہوکر ملک کو بد امنی کی آگ سے نکالنے کیلئے ہمارے ہاتھ مضبوط کریں۔
Karachi Airport Attack
آئے روز دہشت گردی کے واقعات پر سیاسی قیادت کے یہ بیانات تو شاید اب پوری قوم کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔پاک فوج اور سکیورٹی اداروں پر حملوں کے بعد اب ہمارے قومی اداروں پر دہشت گردوں کی انتہائی دلیری اور بہادری کے ساتھ یہ کاروائیاں جہاں تک افسوسناک ہیں اسی طرح حکومتی رٹ پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران بھی طالبان کی جانب سے ایسے واقعات ضرور ہوئے مگر حکومت اور پاک فوج نے بیشمار آپریشن کرکے طالبان قیادت کو منہ توڑ جواب بھی دیا۔جس کا بھاری نقصان طالبان کو اٹھانا بھی پڑا۔
ایک ایسا شہری جواپنے گھر کا واحد خود کفیل ہو اپنی بہنوں کی آنکھ کا تارا ہووہ صبح سویرے اٹھ کر اپنے بچوں سے پیار کرے اپنے بوڑھے والدین کی دعائیں لیکر محض دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے گھر سے نکلے اور راستے میں وہ دہشت گردی کا نشانہ بن جائے تو کیا اسکا گھر تباہ نہیں ہوجائیگا؟ اس کی بہنوں کی شادیاں کون کریگا؟ اسکے بوڑھے والدین کو بڑھاپے کا سہارا کون دیگا؟اسکے کمسن اور معصوم بچوں کی پرورش کون کریگا؟ اسکی جوان بیوی کو زمانے کی نظروں سے کو ن بچائے گا؟ اسکے ہنستے مسکراتے گھر میں خوشیاں کون لائیگا؟ کیا ہمارے حکمرانوں کے یہ بیانات کہ ہم دہشت گردوں کو انکی زبان میں ہی جواب دینگے۔
اس معصوم اور بے بس شہیدوں کیلئے کافی ہونگے اور محض تھوڑی سی امدادسے انکا گھر چل پائے گا۔حکومت اور طالبان کے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں یا نہ ہوں پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو امن چاہیے اور یہ امن مذاکرات سے ہو گا یا آپریشن کر کے۔عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
امن آئیگا تو ہر طرف خوشحالی ہوگی،خوشیاں ہوگی اور اگر دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر ہر طرف لاشیں گریں گی،جنازے اٹھیں گے۔
آج تو غریب اور معصوم شہری اور سکیورٹی فورسز نشان پر ہیں مگر وہ وقت اب دور نہیں رہا کہ جب ہمارے حکمران بھی دہشت گردوں کی کاروائیوں کا شکار ہونگے۔پھر انکو سکیورٹی فورسز نہیں بچا پائیں گی۔کیونکہ آج دہشت گرد ی کا نشانہ بننے والے سکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کے لاشے ہم سے یہی سوال کر رہے ہیں کہ ہم اپنا لہو کس کے ہاتھ میں تلاش کریں؟