کسی بھلے آدمی نے کیا خوب کہا ہے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک جھوٹ ، ایک سفید جھوٹ اور ایک جھوٹ حکومتی اعداد و شمار، بالاآخر شریف حکومت نے دوسرا بجٹ پیش کر دیا۔ اسحاق ڈار صاحب اتنا تیز دوڑے کہ نماز کا وقفہ گزر گیااور انہیں پتہ ہی نہیں چلانہ خود نماز پڑھی نہ کسی اور کو اللہ کے حضور سر بسجود ہونے دیا، اگر درمیان میں وقفہ کر کے نماز پڑھ لیتے تو ہو سکتا ہے۔ ان میں خوف خدا در آتا اور وہ جھوٹ بولنے سے کچھ تو اجتناب کرتے۔ حسب معمول بڑے لوگوں کے حصے میں چرغے آئے اور ہمارے حصے میں بچی کھچی ہڈیاں۔ ترقی یافتہ علاقوں کے لیئے فنڈز رکھے گئے اور ہمارے لیئے صرف اعلانات، بجٹ اگلے سال کا حساب کتاب ہوتا ہے۔
حکومت کا روڈ میپ ہوتا ہے کہ آئندہ سال اس نے کون کون سے ترقیاتی کام کروانے ہیں۔ اور کس کس جگہ کروانے ہیں ۔ اور اس پر کتنا خرچ آتا ہے؟ اس تناظر میں دیکھاجائے تو ڈی جی خاں میں وزیراعلیٰ کے اعلانات اور بجٹ کی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو ان دونوں میں کسی ایک کو تو جھوٹ تسلیم کرنا ہی پڑیگا، بڑا جھوٹ یا چھوٹا جھوٹ ، لیکن عوامی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو دونوں ہی جھوٹ ہیں۔ اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ جھوٹ کونسا ہے۔اگر بجٹ میں ساری تفصیلات اور منصوبے نہیں ہیں۔ تو اعلانات کا ڈھندورہ پیٹنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا اور اگر بجٹ میں یہ سارے منصوبے درج نہیں ہیں۔ تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہو گی یہ ایک بڑا سوال ہے؟ جب یہ طے ہے کہ اعداوشمار سب سے بڑا جھوٹ ہوتے ہیں۔ تو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بجٹ کی چیدہ چیدہ باتیں بھی دھراتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے جو اپنے زراعت کے ٹارگٹ مقرر کیئے تھے ان میں حکومت بری طرح ناکام ہو ئی ہے۔ ہاں انہوں نے یہ خوشی کی خبر ضرور سنائی ہے کہ اس کے صنعتی شعبے کے ٹارگٹ پورے ہو گئے ہیں یہ سنتے ہی دل سے آہ نکلی اے کاش ہمارے ان شریف حکمرانوں کا تعلق زراعت کے شعبہ سے ہوتا تو کیا اچھا ہوتا کوئی اور ٹارگٹ پورا ہوتا نہ ہوتا کم ازکم یہ ٹارگٹ تو پورا ہو جاتا۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں ۔ ہمیں زرمبادلہ کا بیشتر حصہ زراعت کے شعبہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی اکثر آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ جو براہ راست بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔
حکومت کا زرعی شعبہ میں اپنے ٹارگٹ تک رسائی حاصل نہ کرنا موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی سمجھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہ سکتے ہیں۔ کہ حکومت ہمارے ملک کے 70 فیصد باشندوں کو مطمئن نہیں کر پا رہی بات شہری آبادی کی تو یہ اندازہ آپ حکومت مخالف جماعتوں سے ہی لگا لیں جس میں عوام کا حجم غفیر سراپاء احتجاج دکھائی دیتا ہے ایسے میں حکومت کاا طمینان ہمیں اس کبوتر کی یاد دلاتا ہے جو اپنی آنکھیں بند کر کے کہتا ہے کہ بلی نے اسے نہیں دیکھا۔
Ishaq Dar
حکومتی پارٹی نے بجٹ 2014,2015 کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے حکومت نے بجٹ کی صورت میں ڈرون حملہ کر دیا ہے۔ کہتے ہیں سمندر خاموش ہو تو اس کی تہہ میں طوفان پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ عوامی غصہ سطح آب تک آن پہنچا ہے۔ جو ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔ لیکن یہاں تو ” سب اچھا ہے” کا حکومتی دعویٰ لگتا ہے اسے لے ڈوبے گا۔ واضح رہے کہ حکومت کو کسی اور سے نہیں خود اپنے مینڈیٹ سے خطرہ ہے۔
اگر میں صرف اپنے وسیب کی صورتحال کو سامنے رکھ کر حکومتی کارکردگی کا جائزہ لوں تو آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ حکومت ہمیشہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ترقی یافتہ شہروں کے لیئے تقریبا 50 منصوبے مگر سرائیکی وسیب میں نیا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں لایا گیا۔ بس پرانے منصوبے ہی مکمل ہوں گے وہ بھی اگر حکومت توجہ دے تو؟ہر آئین میں یہ بات موجود ہے کہ دورافتادہ علاقوں کی پسماندگی ختم کرنے کے لیئے وسائل کا رخ ترقی یافتہ شہروں سے پسماندہ علاقوں کی طرف کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں تو اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا ہر ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے وسیب کی عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات سے بھی محروم ہے۔ شاید حکومت یہی سمجھتی ہے کہ میرے وسیب (جنوبی پنجاب ) میں بسنے والے نہ تو انسان ہیں اور نہ ہی انکے حقوق جنوبی پنجاب میں 6 سال کے عرصہ میں شعبہ صحت میں جوابتری دیکھنے میں ئی ہے ایسی پہلے کبھی نہ تھی۔ ہسپتالو ں میں دوائیں نایاب ایمبولینس کھٹارہ ، ڈاکٹرز کے رہائشی کوارٹرز یوں لگتے ہیں جیسے کسی کھنڈرات کا حصہ ہوں ایمرجنسی میں دواوں کی عدم دستیابی سے مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اربوں روپے کی خطیر رقم سے دانش سکول بنوائے اور ڈی جی خاں میں بھی دانش سکول بنوانے کا وعدہ کیا تا کہ غریب لوگوں کے بچے بلامعاوضہ دانش سکول میںتعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر دانش سکول میں کرپٹ پرنسپلز اور بے حس ایڈمنسٹریشن اور کلرکس غریب بچوں کی فاعلیں مسترد کر دیتے ہیںجبکہ اثر و رسوخ رکھنے والوں کو شایان طریقے سے دانش سکولوں میں ایڈمیشن دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سختی سے نوٹس لے کر غریبوں کے حال پر رحم کریں۔ تاکہ غریب طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔ جتنے پیسے دانش سکولوں پر خرچ کیئے جا رہے ہیں۔
ان پیسوں سے وسیب کے پورے سکول ٹھیک ہو سکتے ہیں اور تعلیمی معیار بلند ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ کے سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے اور عمارتیں ایسے لگتی ہیں جیسے کسی آسیب کا مسکن ہو دیہاتوں کے متعدد سکولوں پر مقامی زمیداروں اور جاگیرداروں نے قبضہ کر کے اپنے ڈیرے بنا رکھے ہیں۔ ٹیچرز کی عدم دستیابی غرض میرا وسیب تعلیمی میدان میں بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔
سرائیکی وسیب میں موجودہ حکومت نے عملَاَ کچھ نہیں کیابس جھوٹے اور بے بنیاد دعوے ہی ٹھونسے ہیں۔ بلکہ یوں کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ حکومت کام کی بجائے اپنا نام اور سیاست چمکانے میں مصروف عمل ہے۔ بقول شاعر
کتنے خوش ہیں یہ نئی رت کے انوکھے حکمران نام کے شوق میں پانی پہ بنا کے بستی
Mubarak Shamsi
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل ۔۔۔۔۔ mubarakshamsi@gmail.com