کراچی ایئرپورٹ آپریشن کس نے کیا؟
Posted on June 12, 2014 By Geo1 Webmaster سٹی نیوز
24 گھنٹے پہلے ہی چونکہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر زبردست خونی ڈرامہ ہو چکا تھا، لہٰذا اگلے ہی دن (دس جون) کو ایئرپورٹ کے نواح میں جب فائرنگ ہوئی تو اس کی وجوہات جاننے سے پہلے ہی کڑی سے کڑی جوڑی جا چکی تھی۔ سانپ کا کاٹا یوں بھی رسی سے ڈرتا ہے، چنانچہ قانون نافذ کرنے والے سب ادارے حرکت میں آگئے۔ ایئرپورٹ آپریشن معطل ہوگیا۔ آنے جانے والی سڑکیں بند کردی گئیں۔ ایئرپورٹ کے پیچھے کی مشتبہ آبادی کو گھیرے میں لے کر کڑی تلاشی شروع ہوگئی۔ (یہ ردِعمل شاید قدرتی تھا)۔ مگر چینلوں پر تو گویا ایک بار پھر جشن بپا ہوگیا۔ شوں شاں چھک چھک ڈھم ڈھم کی آوازوں کے ساتھ ہر رنگ کی بریکنگ نیوز چلنے لگی۔
کسی نے زحمت نہیں کی کہ علاقے کے پولیس تھانے سے واقعے کی تفصیلات یا اسباب معلوم کرلے۔ شاید خطرہ یہ تھا کہ اگر کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا تو کہیں میڈیا کے رنگ میں بھنگ نہ پڑ جائے:
ایئرپورٹ پر ایک اور حملہ ایئرپورٹ سیکورٹی فورس اور حملہ آوروں میں فائرنگ کا تبادلہ جاری حملہ آوروں کی تعداد چار ہے۔ ایک پکڑا گیا۔ تین کی تلاش جاری پانچ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے نہایت چابکدستی سے حالات پر قابو پا لیا
صرف 24 گھنٹے میں ایئرپورٹ کے نواح میں ایسا واقعہ دوبارہ کیسے ہوگیا؟ ذرا سوچیے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
کہانی یہ ہے کہ ایک لڑکا ایک لڑکی کو پیچھے بٹھائے موٹرسائیکل پر جا رہا تھا کہ اچانک کسی نے موٹر سائیکل والے پر دو تین فائر داغ دیے۔ ذاتی دشمنی کے نتیجے میں یہ واقعہ اتفاقًا ایسی جگہ ہوا جہاں ایئرپورٹ سیکورٹی فورس کا دفتر یا چوکی یا جو بھی کہہ لیں قریب تھے۔ مگر اس واردات کو آسمان پر چڑھانے والا کوئی بھی خبری اس واقعے کو زمین پر اتارنے اور ریکارڈ درست کرنے کے لیے اب تک تیار نہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے اس معمولی واقعے سے 24 گھنٹے پہلے ایک چینل نے جناح انٹرنیشنل کے غیر معمولی واقعے میں عمارتوں میں لگی آگ اور دھوئیں سے گھرے طیاروں کو پہلےگنا اور پھر پانچ طیارے تباہ کروا دیے۔
ایک اخبار نے مزید مستعدی دکھاتے ہوئے یہ تک بتا دیا کہ ان میں سے ایک طیارہ پی آئی اے کا، ایک ایئر بلیو کا، ایک شاہین کا اور دو روسی کارگو طیارے تھے۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے پاس اپنی بریکنگ نیوز ہے جس کے مطابق تین طیارے زخمی ہوئے۔ فوج اور رینجرز کے ذرائع صرف عمارتوں کی تباہی کی بات کر ر ہے ہیں۔
ہاں اگر کوئی بات نہیں کر رہا تو وہ یہ ہے کہ بھاری ہتھیاروں سے مسلح لوگ حفاظتی حصار توڑ کر رن وے تک کیسے پہنچے؟
کوئی سوال نہیں اٹھا رہا کہ موجودہ حکومت نے جس طمطراق سے تمام متعلقہ اداروں کو ایسے مواقع پر یکجا کرنے کے لیے کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی تخلیق کی ہے، وہ دور دور تک کیوں نظر نہیں آ رہی۔
کس ادارے نے اس ابتلا سے نمٹنے میں اپنے اپنے طور پر کتنا کردار نبھایا، یہ واضح نہیں۔ اور اگر مقصود یہ ہے کہ اسے مشترکہ کارروائی ہی کہا جائے تو پھر صرف پاک فوج ہی زندہ باد کیوں، رینجرز، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس اور پولیس زندہ باد کیوں نہیں؟ کوئی سوال نہیں اٹھا رہا کوئی سوال نہیں اٹھا رہا کہ موجودہ حکومت نے جس طمطراق سے تمام متعلقہ اداروں کو ایسے مواقع پر یکجا کرنے کے لیے کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی تخلیق کی ہے وہ دور دور تک کیوں نظر نہیں آ رہی؟
کوئی نہیں بتا رہا کہ ہلکے ہتھیاروں سے مسلح ایئرپورٹ سیکورٹی فورس کے ارکان نے انتہائی مسلح، پروفیشنل اور سرفروش حملہ آوروں کو صرف ایک علاقے تک محدود کرنے کے لیے کیا قربانی دی؟ (مرنے والوں میں سے 13 اے ایس ایف کے ارکان بتائے جاتے ہیں)۔ آپریشن کے دوران میڈیا چینل واضح طور پر بٹ چکے تھے۔ کچھ مسلسل یہ لائن لیے ہوئے تھے کہ آپریشن کی کمان ڈی جی رینجرز کر رہے ہیں۔ کچھ بتا رہے تھے کہ کور کمانڈر قیادت کر رہے ہیں۔ 81 سالہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ بھی ایئرپورٹ پر ہی تھے مگر یہ واضح نہیں کہ کیوں تھے ( کیا وہ بھی کمان کررہے تھے؟)
یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا کہ کیا دس دہشت گردوں میں سے کسی ایک کو بھی کسی نے اس نیت سے زندہ حراست میں لینے کی کوشش کی کہ پوچھ گچھ کے ذریعے منصوبے، نیٹ ورک اور اندر کے مددگاروں تک پہنچا جا سکے؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر یہ کیسے معلوم ہوا کہ دہشت گرد کوئی طیارہ ہائی جیک کرنا چاہ رہے تھے یا تمام طیاروں اور انفراسٹرکچر کو برباد کرنے کے مشن پر تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔
البتہ زیادہ تر ٹی وی ناظرین کو لگ رہا تھا جیسے آپریشن کی کمان چینلوں کے کیمرا مین کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کی کمان بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ میڈیا کی ان پیشہ ورانہ خدمات کا اعتراف فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے آپریشن کی رات سوا ایک بجے ہی اپنے ٹوئٹر پر کر دیا تھا:
’ایئرپورٹ کے اندر کی براہ راست کوریج بند ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف آپریشن میں رکاوٹ پڑ رہی ہے بلکہ متاثرہ علاقے اور فوجیوں کی نقل و حرکت بھی طشت از بام ہونے سے دہشت گردوں کی مدد ہورہی ہے۔‘
اچھا ہی ہے کہ اب تک حکومت نے ملک کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی اس طرح سے پامالی کے اسباب اور ذمہ داری کے تعین کی تحقیقات کے لیے کسی حاضر یا ریٹائرڈ جج کو نامزد نہیں کیا۔ اس سے وقت اور سٹیشنری کی خاصی بچت ہوگی۔ پہلے ہی بیسیوں کمیشنوں کی بیسیوں سفارشات کو دیمک کھا رہی ہے۔ ویسے بھی دہشت گرد دماغ کی ورزش میں ریاست سے دو ہاتھ آگے ہی پائے گئے ہیں۔ کمیشن کس کس وارادت کے پیچھے ہانپے گا۔