کہاوت مشہور ہے کہ ”ہاتھی کی موت چیونٹی سے ہوتی ہے” وہ کیسے…؟ سنا تھا کہ چیونٹی ہاتھی کی سونڈ کے راستے اس کے دماغ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر مغز کو کریدنا شروع کرتی ہے، ہاتھی بے چین ہو کر اسے نکالنے کیلئے سونڈ اورسر جھٹک جھٹک کر اس قدر بے حال ہو جاتا ہے کہ بالآخر موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ہاتھی کی موت چیونٹی کے اس کی سونڈ پر کاٹنے سے ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس بات کا ہاتھی کو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی قدرتی و فطری طور پر ادراک ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ جب چارہ کھاتا ہے۔
تو اسے بے تحاشا جھٹک جھٹک کر کھاتا ہے کہ مبادا کہیں کوئی چیونٹی اس کی سونڈ میں گھس کر یا اس پر کاٹ کر اس کی موت کا سبب نہ بن جائے۔ یہ داستانیں کتنی درست ہیں اور کتنی غلط… اس کا تو شاید کسی کو صحیح علم نہ ہو کیونکہ آج تک ہمارے یا ہمارے پڑھے سنے کے مطابق کسی اور کے عملی مشاہدے میں نہیں آیا کہ فلاں ہاتھی چیونٹی کے ہاتھوں مارا گیا ہے لیکن لگتا ہے جس تناظر میں یہ بات کہی گئی ہے، وہ سو فیصد سچ ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ حکومت نے اپنے دور کے وسط میں ایس ایم ایس پیکجز بند کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ جو صدر و وزیراعظم کے خلاف نازیبا ایس ایم ایس کرے گا اسے 7 سے 14 سال قید کی سزا دی جائے گی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ بنی تھی کہ ملک کے حکمران اعلیٰ کے نام کے ساتھ ایک خاص جانور کا نام جوڑ دیا گیا تھا حتیٰ کہ اس وقت کے وزیرداخلہ بھی ساری دنیا کے سامنے کھڑے ہو کر وہی الفاظ ادا کر رہے تھے۔ اب یہ آوازئہ خلق تھا جسے بند کرنا ممکن نہ تھا اور یہ چونکہ ایک مخصوص شخصیت کے خلاف تھا، اس لئے اسی میڈیا اور انہی صحافیوں نے اس کی ذرا بھر پروا نہ کی بلکہ اسے آزادی اظہار رائے پر پابندی تک قرار دیتے اور ظلم کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن آج جب ان کے اپنے پردے چاک ہونا شروع ہوئے ہیں تو یہی آزادی اظہار رائے کے ٹھیکیدار خود ہی پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور معمولی سی چیونٹیوں سے اتنے بڑے بڑے ہاتھی و عفریت جانیں بچانے کیلئے بھاگتے پھر رہے ہیں۔
آج کے دور کو ابلاغ و ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں پہلے ریڈیو پھر ٹی وی اور پھر انٹرنیٹ آیا۔ پہلے دو یعنی ریڈیو اور ٹی وی تک تو عام شخص کی رسائی قطعاً نہ تھی البتہ تیسرے میڈیم یعنی انٹرنیٹ میں طویل عرصہ بعد لوگوں کو باہم ربط و تعلق کی سہولت میسر آئی۔ اسی ربط و تعلق کے سلسلے میں لوگ باہم مختلف دلچسپیوں کا تبادلہ خیال کرنا شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے اوپر مخصوص افکار و نظریات کو ٹھونسنے، تھوپنے اور مسلط کرنے والوں کے خلاف بھی آواز بلند کرنا شروع کی۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کا میڈیا جس کی باگ ڈور شروع سے اسلام و پاکستان کی دشمن غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں میں رہی ہے، وہی اس کو لے کر چلتی تھیں، عوام انہی کو ہر صورت سننے اور محض کڑھنے پر مجبور ہوتے تھے اور کر کچھ نہیں سکتے تھے، صورتحال تقریباً آج بھی وہی ہے۔
میڈیا خصوصاً ٹی وی پر چند مخصوص چہرے بیٹھے ہیں، تقریباً سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے، وہ مخصوص گنے چنے لوگوں کو سامنے لاتے ہیں اور پھر روزانہ دن میں کئی کئی بار تماشا لگاتے ہیں۔ یہی لوگ اخبارات پر بھی مسلط ہیں اور وہاں ان کے علاوہ کسی اور کا لکھا چھپ نہیں سکتا۔ لیکن آج تھوڑی سی تبدیلی یہ آئی کہ ان لوگوں کے جھوٹ، دغا بازی، ملک و اسلام دشمنی اور ان کی شب و روز کی غداری کو عوام نے پکڑا اور انتہائی محدود پیمانے پر ایک دوسرے تک پہنچانا اور پھیلانا شروع کر دیا۔
Facebook
اس کام کیلئے انٹرنیٹ پر جو سب سے بڑا ذریعہ استعمال ہوتا ہے اس کا نام”فیس بک” ہے۔ بنیادی طور پر ان لوگوں کے ڈھول کا پھول کھولنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے لیکن یہ پیغام ”چراغ سے چراغ جلے” کی مانند انتہائی معمولی پیمانے پر آگے پھیلنا شروع ہوا تو ہاتھیوں اور عفریتوں کو چیونٹیوں کی چبھن محسوس ہونا شروع ہوئی۔ یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ان کے مقابل بھی آنے یا ان کی کسی بولی، لکھی بات کے خلاف سوچ بھی سکتا ہے۔
یہ چند لوگ پہلے پہل تو سمجھتے تھے کہ ان کے وسائل کا کوئی حساب نہیں، ان کے سامنے حکومتیں سرنگوں ہوتی ہیں، انہیں ساری دنیا کی حمایت حاصل ہے یعنی ”یہاں بھیئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا” لیکن اب ان کے کیمپوں میں افراتفری کا عالم ہے کہ بے وسیلہ، بے نام، بے وقعت و بے حیثیت بچے بچونگڑوں کی یہ جرأت کہ انہیں چیلنج کر لیں…؟ لہٰذا ان پر پابندی لگنی چاہئے… ان لوگوں نے یہ تو کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پر پابندی لگائی جائے، اسے بند کیا جائے۔ یو ٹیوب پر لگی پابندی سے یہ روزانہ تڑپتے ہیں لیکن اسی فیس بک یا یو ٹیوب پر ان کے خلاف اگر کچھ آ جائے تو ان کے پائوں جلنے لگتے ہیں، کیوں…؟ صرف اس لئے کہ یہ چاہتے تھے کہ ان ہاتھوں اور عفریتوں کے مقابل آنے کو کوئی چیونٹی بھی نہ سوچ سکے۔ ان کی بے ایمانی کا عالم دیکھئے کہ گزشتہ11سال سے ترکی پر سب سے کامیاب حکمرانی کرنے والے وزیراعظم رجب طیب اردوان کے خلاف چند ہزار لوگ سڑکوں پر اس لئے میدان میں آئے کہ انہیں اسلامی اصلاحات قبول نہیں۔
ان لوگوں نے کھل کر کہا کہ انہیں ”دودھ نہیں شراب چاہئے…” مساجد نہیں جدید سکول چاہئیں… ”عرب دنیا نہیں، سیکولر ملک چاہئے…” اور انہیں یہی میڈیا دن رات ایک ایک پہلو سے دکھاتا رہا لیکن ان کے جواب میں جب وزیراعظم رجب طیب اردوان کے لاکھوں اسلام پسند اور اسلامی تبدیلیاں چاہنے والے حامی بار بار شہر شہر میدان میں آئے تو ان کیلئے میڈیا میں کہیں کوئی جگہ نہیں، کوئی کوریج نہیں، کہیں کوئی آواز نہیں…اور جب حالیہ الیکشن میں ترک عوام نے ایک بار پھر طیب اردوان اور ان کی پارٹی کو ہی پہلے سے زیادہ بھاری اکثریت سے منتخب کر لیا تو پھر مخالفین اب تک بغلیں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ اب اس طرزعمل پر کوئی شخص محض اپنے دوستوں میں بیٹھ کر احتجاج کرے تو وہ بے شرم، کمینہ، بے ضمیر کہلائے گا۔
یہ لوگ کراچی کے شاہ زیب کے قتل کا معاملہ اسی لئے دبانا چاہتے تھے کہ قاتل بہت طاقتور تھے لیکن سوشل میڈیا نے ایسا زور لگایا کہ معاملہ سزائے موت تک پہنچا۔ یہ لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کبھی مختاراں مائی کو میدان میں لاتے ہیں تو کبھی سوات کی جھوٹی ویڈیو پھیلاتے ہیں اور کبھی ملالہ ڈرامے پر زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں لیکن جب محض چند نوجوان بوسیدہ کمپیوٹرز پر بیٹھ کر لوڈ شیڈنگ کی مارا ماری میں بغیر کسی مادی و مالی مفاد و منفعت کے صرف قوم کا درد لے کر اس سارے جھوٹ اور فراڈ کا پول کھولیں تو وہ سب سے بڑے مجرم کہلاتے ہیں۔لیکن اصل بات یہ بھی ہے کہ سچ سچ ہوتا ہے۔
آج پاکستان کے سارے ہی عوام ملالہ کو پاکستان دشمن اور مغرب کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔حالانکہ ملالہ کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے اعلیٰ ترین شخصیت بنانے کے لئے انہوں نے کیا نہیں کی تھا اور اب تک کیا نہیں کر رہے۔ اسی قبیل کے ایک سرخیل ملک کے ایک مایہ ناز قصہ گو صحافی بھی ہیں جنہوں نے محض ضد میں آ کر یہ تک لکھ دیا تھا کہ برما میں مسلمانوں پر کوئی مظالم نہیں ہوئے۔سوشل میڈیا پر جھوٹے لوگ جھوٹ پھیلا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کہاں دنیا بھر کے اندھے وسائل، ہر طرف سے مدد اور عالمی سطح پر حمایت یافتہ نیٹ ورک اور کہاں یہ گنتی کے نہتے چند نوجوان… کہاں کا مقابلہ…؟ کہاں کا میدان…؟ لیکن لگتا ہے کہ کہاوت سچی ہو رہی ہے اور ہاتھی و عفریت چیونٹی سے خوفزدہ ہیں اور یہ ڈر انہیں ہونا ہی چاہئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”ہم حق کو اٹھا کر باطل پر دے مارتے ہیں جس سے باطل کا بھیجا نکل جاتا ہے” اور اللہ کا کہا ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے۔