بغداد (جیوڈیسک) عراق میں دہشت گردوں نے شمالی شہروں پر کنٹرول کے بعد دارالحکومت بغداد اور مقدس شہروں کا رخ کرنے کااعلان کیا ہے۔ عراق ہر گزرتے لمحے شیعہ، سنی اور کرد علاقوں میں گہری تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دس لاکھ عراقی فوجی کئی شہروں پر دہشتگردوں کا کنٹرول روکنے میں ناکام رہے ہیں تاہم بغداد کی طرف پیش قدمی کرنے والوں کو اب پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عراقی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ فوج اپنی طاقت کے بل پر القاعدہ کو پیچھے دھکیل رہی ہے، بغداد کے شمال میں کامیابی بھی ملی ہے۔ انہیں توقع ہے کہ القاعدہ کو مغربی عراق اور مشرقی شام میں ریاست بنانے سے روکا جا سکے گا۔
شام میں الیپو سے عراق میں بغداد کے نواح اور ابو کمال سے موصل تک کئی شہر القاعدہ کے نرغے میں ہیں۔ صدام حسین کے شہر تکریت اور آئل ریفائنریز کے شہر بائیجی کو چھڑانے کے لیے فضائیہ نے اب حملے کیے ہیں۔ فضائی اور زمینی حملے موصل پر پھر سے قبضے کے لیے بھی کیے گئے ہیں تاہم ایک ایسے لمحے میں جب تکریت سمیت مختلف شہروں میں دہشتگرد نیم مسلح اہلکاروں کو یرغمال بنا رہے ہیں، امریکا نے کارروائی میں مدد دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ دہشتگردوں کا رخ اب بغداد اور مقدس شہروں کی جانب ہے۔
ایران صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایران کے صدرحسن روحانی نے کہا ہے کہ انکا ملک دہشتگردی برداشت نہیں کرے گا۔ وہ اقوام متحدہ کو بتا چکے ہیں کہ ایران خطے اور دنیا بھر میں تشدد، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ بغداد اور بصرہ میں ہزاروں شہری مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں جنہوں نے خود کو فوج میں رضا کار کے طور پر شامل کر لیا ہے۔
شام جیسی صورتحال کا سامنا کرنے اور نقل مکانی پر مجبور عراقیوں کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان اور یمن میں ڈرون حملے کیے جا سکتے ہیں تو شام اور عراق کو تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے نظریں کیوں چرائی جارہی ہیں۔