اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سینئروکلا کی رائے تقسیم ہے۔
کچھ وکلاکے خیال میں ہائیکورٹ کافیصلہ مبہم ہے، کسی کے نزدیک واضح فیصلہ دینے کے بجائے درمیان کاراستہ اختیارکرتے ہوئے معاملہ حکومت کے کندھوں پر لاددیا گیا ہے جبکہ بعض وکلانے درپیش صورت حال میں اس کو مناسب فیصلہ قراردیا ہے۔
کہا کہ جہاںتک زیربحث فیصلے کے حوالے سے قانونی پہلوہے تو سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر واضح ہے۔ انھوں نے کہا کہ لگتاہے عدالت ڈبل مائنڈڈتھی کیونکہ پہلے توکیس کو لٹکایا گیا اورپ ھر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلے میں بھی تاخیرکی گئی۔
اے کے ڈوگرنے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی پٹیشن قابل سماعت ہی نہیں تھی کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی ایک مقدمے میں اس بارے میں فیصلہ دے چکی ہے اور پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کامعاملہ عدالت کی پیشگی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔
اپنے فیصلے پر سپریم کورٹ خودہی دوبارہ جائزے کی مجازہے۔ وسیم سجادنے رائے دی کہ سندھ ہائیکورٹ نے متوازن، درست اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ درخواست گزار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعامنظور تو کرلی گئی لیکن فیصلے کااطلاق 15 روزکے لیے معطل رکھا گیا تا کہ وفاقی حکومت اگر فیصلہ چیلنج کرنا چاہے تو اسے اپیل کے لیے مناسب وقت مل سکے۔