”اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں”

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر عالمی اہمیت کے جو اعلان فرمائے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا۔”اے انسانو!تم سب کا رب ایک ہے۔تم سب کا باپ ایک ہے۔نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے،نہ کسی عجمی کو عربی پر،نہ کسی گورے کو کالے پربرتری ہے نہ کسی کالے کو گورے پر ہے۔اگر فضلیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔

افسوس صدا افسوس ہمیں آج تک تقویٰ کرنا نہیں آیا ہاں البتہ فتویٰ باخوبی دے دیتے ہیں۔ کوئی پوچھے نہ پوچھے ہم فتویٰ داغ دیتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟اخوت اور بھائی چارہ کی جو بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈالی تھی،اسے بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہے ہیں۔کالے،گورے کی بات بہت دور ہے،ہم اپنے ہی گھر کو اپنے ہی چراغ سے جلا رہے ہیں۔اپنا سکہ جمانے کی خاطر دوسروں کو زیر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔خود کو انسان اور دوسروں کو حیوان گردانتے ہیں۔

کلاچی سے جانے والی بستی ترقی ترقی کرتے کرتے کراچی شہر بن گیا۔وہ کراچی جسے کچھ عرصہ پہلے ہم روشینو ں کا شہر کہتے تھے۔جو بدقسمتی سے تاریکیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔پاکستان کا پہلا درالخلافہ ہونے کا اعزاز اسی کے پاس ہے۔پھر جیسے جیسے کراچی ترقی کرتا گیا اسے منی پاکستان کہا جانے لگا۔یہ وہ کراچی ہے جہاں کبھی بانی پاکستان سکون سے ابدی نیند سو رہے تھے۔مگراب ظالموں نے ان کے نیند میں خلل برپا کر دیا ہے۔ان کی روح کراچی میں افرتفری دیکھ ضرور کانپ رہی ہو گی۔

سمندر کے ساحل پر عبداللہ شاہ غازی کا مزار مبارک ہے۔درندوں نے وہاں بھی حملے کر دیئے۔ پاکستان کی ترقی کا انحصار کراچی ہے۔تمام غیرملکی تجارت کا ذریعہ کراچی ہے۔۔پاکستان کی اہم بندرگاہ بھی کراچی ہی میں ہے۔یہی ترقی اپنوں کو پسند نہیں ہے۔اپنوں نے غیروں کے ساتھ مل کر اسے یرغمال بنا لیا ہے۔وہ جو کبھی اپنے تھے اب غیر غیر سے ہو گئے ہیں۔پریشیر گروپ سے ایجاد ہونے والاگروپ کاش پریشر ککر بن جاتا توبہتر تھا۔

University

University

مگر کالج، یونیورسٹی، محلے کے جتنے (راکٹ )تھے سبھی اس کا حصہ بن گئے۔یہ وہ لوگ تھے جو اپنا پریشر قائم کرتے ہوئے ایک جماعت کی شکل اختیار کر گئے۔آج کل سیاست کے میدان ایم کیوایم نامی جماعت ہے۔جس کا سردار الطاف بھائی ہے۔جان کی امان پائوں تو عرض کروں،بھائی تو بھائیوں کا مان ہوتے ہیں۔بھائی تو بہنوں کی عزت کا رکھوالے ہوتے ہیں۔کہتے ہیں جب بھائی ،بھائی لوک بن جائیں تو تمام غیرت زمین بوس ہوجاتی ہے۔

ضمیر مردہ ہوجا تا ہے۔پھر نہ بھائی نظر آتا ہے نہ بہن کا آنچل بس درندگی عروج پکڑ لیتی ہے۔یہ بھائی لوک بھائیوں کے گھر اجاڑتے ہیں۔مائوں کی گود اجڑاتے ہیں۔ دولہنوں کے سہاگ چھین لیتے ہیں۔ بوڑھوں کے سہارے چھین لیتے ہیں۔ بھائی لوکوں کا بھائی ملک سے باہر برطانہ میں ڈیرے جمائے ہوئے تھا۔پاکستان کی فضا اسے گرم لگتی تھی یا پھر کاروبار نہیں چمک رہا تھا سو ٹھنڈی ہوائوں،انگریزوں کا ساتھ مناسب سمجھا۔افسوس!وہاں کے اصول پرست بھائی لوکوں ،نے ہمارے شریف النفس بھائی کو گرفتار کرلیا۔وہ بھی منی لاڈرنگ کیس میں۔ارے یہی تو جگہ تھی جہان پیسہ جمع کیا جا سکتا تھا۔تم نے تو وہ بھی چھین لیا۔

بھائی کی شرافت تھی کہ فورا بیمار پڑگئے ۔ورنہ جان کی رہائی کیسے ممکن ہوتی۔ویسے بھی ہمارے سیاستدانوں کا وطیرہ رہا ہے۔جب اقتدار کے مزے ہوتے ہیں تب غیر ملکی دوروں پہ دورے فرماتے ہیں اور جب ان پر کوئی کیس ،بدعنوانی کا کوئی داغ پڑتا ہے تو بیچارے بیمار پڑ جاتے ہیں۔جب عدالتیں ان کا دیدار کرنا چاہتی ہیں تو ان کے ہاضمے خراب ہو جاتے ہیں۔یا سزا سے بچنے کے لئے بہانے تراشے جاتے ہیں۔جیلوں میں جانے سے،یا عدالتوں میں جانے کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

جیلوں سے باہر آتے ہی اقتدار کی کرسی انتظار فرما رہی ہوتی ہے۔عمدہ مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔آصف علی زرداری اور ان جیسے ہزاروں اور۔اب مبارک ہو جنرل پرویز مشرف اور الطاف بھائی کو اگلا اقتدار آپ کا ہی ہے۔چاہے عوام مر جائے،یا روٹی کو ترسے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔الطاف بھائی کا ستارہ عروج پر نظر آتا ہے۔جن کے لب ہمیشہ کہتے رہتے ہیں میں پاکستانی عوام کا خیر خواہ ہوں،خیر ہوگی تو خواہ بھی ہوں گے۔

خود تو دربدر ہیں اور عوام کو بھی دربدر کرنا چاہتے ہیں۔ادھر الطاف بھائی کو گرفتار کیا گیا ،ادھر ان کے کارندوں نے بیچاری عورتوں،بچوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر سڑکوں پر جمع کر دیا۔گاڑیاں ںنذر آتش کی گئیں۔ٹائر جلا کر روڈ بلاک کر دیئے گئے۔کراچی کو سیل کر دیا۔ٹرانسپورٹ بند ہوگئی۔روزگار تھپ ہو گیا۔کئی جان سے گئے۔کئی معذور ہوئے۔کئی بھوک سے مر گئے اور ڈر کے مارے مر گئے۔ کہاں کا قانون ،کہاں کا انصاف کہتا ہے کہ بیرون ملک گرفتار تم ہو اور اپنے وطن کا امن برباد کرو۔ سزا غربیوں کو ملے۔

کیونکہ انہوں نے حامی بھری ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، اس وطن پر جان قربان کرنے والے، اس وطن کے لئے مخلص۔ سیانے سچ ہی تو کہہ گئے ہیں اپنے ہی گِراتے ہیں نشمن پر بجلیاں،ورنہ غیروں کو کیا خبر کہ دل کی جگہ کہاں ہے۔اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے اپنے ہاتھ غریبوں کے خون سے رنگ رہے ہیں۔ لیکن اے ظالموں خدا کی لاٹھی ببے آواز ہوتی ہے۔جب پڑتی ہے تو خبر نہیں رہتی۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com