بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ اور فوج کے نئے نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے مقبوضہ کشمیر کا دوروزہ دورہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ وزیر دفاع ارون جیٹلی بھی تھے جن کا وزیر دفاع کی حیثیت سے یہ پہلا دورہ تھا۔مقبوضہ کشمیر آمد پرانہوںنے ریاستی گورنر این این ووہرا، کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اوراعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں انہیںکنٹرول لائن پر حالیہ کشیدہ صورتحال، بھارتی فورسز کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات، کشمیری مجاہدین کی مبینہ دراندازی اور چین کے ساتھ لگنے والی سرحدی صورتحال کے حوالہ سے مفصل گفتگو کی گئی۔
بھارتی وزیر دفاع اور اعلیٰ فوجی قیادت نے کنٹرول لائن پر اگلے مورچوںکا بھی دورہ کیااور فوجیوں سے ملاقاتیں کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اس موقع پر وزیر مملکت رائو اندرجیت سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں ملاقاتوں کے دوران امر ناتھ یاترا اور کشمیری پنڈتوںکی واپسی کے موضوعات بھی زیر بحث آئے۔
بھارتی وزیر دفاع اور عسکری قیادت کا حالیہ دورہ کشمیر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ اس وقت کیا گیا ہے جب کنٹرول لائن پر پاک بھارت فوجوں کے مابین سخت کشیدگی پائی جاتی ہے اور مختلف مقامات پر شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے تین دن قبل کوٹلی، نکیال اور لنجوٹ سیکٹرز پر مارٹر گولوں اور جدید ہتھیاروں سے سخت گولہ باری کی گئی جس میں ایک پاکستانی فوجی شہید جبکہ چار شہری زخمی ہوگئے لیکن اس مرتبہ بھی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیز فائر لائن معاہدہ کی خلاف ورزی کا الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔
بھارتی وزیر دفاع اور فوجی حکام کے دورہ کشمیرپر عسکری ماہرین اسے بھارت کی طرف سے واضح پیغام قرار دے رہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت اورفوجی قیادت پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے کنٹرول لائن پر کشیدگی میں مزید شدت پیدا کرے گی ۔اسی طرح کشمیر کے حوالہ سے دفعہ تین سو ستر کے خاتمہ اور بیرون ریاست سے ہندوئوں کو یہاں بسا کر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ پاکستان میں تخریب کاری ودہشت گردی اور کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کیلئے بھارت کی نو منتخب حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔
بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ ویسے بھی نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے حوالہ سے پہلے ہی بہت بدنام ہیں اور خود بھی فوج میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوںمیں ملوث رہے ہیں۔جنرل بکرم سنگھ جب مقبوضہ کشمیر میں فوج کی 5آر آر میں ایک بریگیڈیئر کے عہدہ پر تعینات تھے جس کا ہیڈ کوارٹر اننت ناگ میں تھا تو یکم مارچ 2001ء میں اننت ناگ کے علاقہ میں ہی جنگلات منڈی میں مبینہ طور پر بھارتی فوج اور کشمیری مجاہدین کے مابین خونریز جھڑپ ہوئی جس میں جنرل بکرم سنگھ نے بھی ”حصہ ”لیا اور خود بھی زخمی ہو گئے۔
اس جھڑپ میں متین چاچا نامی ایک معروف پاکستانی اعلیٰ کمانڈراور پانچ دیگر سرگرم حریت پسندوں کی شہادت کا دعویٰ کیا گیا تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستانی کمانڈر اور پانچوں سرگرم کشمیری مقامی نوجوان تھے جنہیں زبردستی اغواء کر کے محض ترقیوں و تمغوں کے حصول کیلئے فرضی جھڑپ کا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔ جنگلا ت منڈی کے نام سے معروف ا س فرضی جھڑپ میں خودساختہ زخمی جنرل بکرم سنگھ کو اعلیٰ فوجی اعزار اور انعام و کرام سے نوازاگیا۔ بعد ازاں جب وہ شمالی کمان کے سربراہ بنے اور آرمی چیف بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے تو پاکستانی کمانڈر قرار دیکر شہید کیے گئے کشمیری نوجوان کی والدہ اور بہن نے ریاستی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے شہید نوجوان کی قبر کشائی کی درخواست کی۔اس دوران جنرل بکرم سنگھ ابھی آرمی چیف نہیں بنے تھے کہ وہ ایک حساس تنازعہ میں گھر گئے۔
Media
اس کیس کی عالمی میڈیا میں بھی بازگشت سنائی دی کہ جسے پاکستانی کمانڈ ر کہا گیا تھا وہ کپواڑہ کا ایک مزدوری پیشہ نوجوان تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے اور جنرل بکرم سنگھ کو فوجی سربراہ بنائے جانے کی سخت مخالفت کی تاہم یہ سب کچھ بے سود رہا۔ ریاستی ہائی کورٹ نے بھارتی وزارت دفاع اور ریاستی حکومت سے بھی وضاحت طلب کی ۔ بار بار تاریخوںکا تعین عمل میں لایا جاتا رہا مگر مظلوم خاندان کی کہیں کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ اسی طرح بھارتی فوج کے ہی اعلیٰ افسران اور سول شخصیات نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جنرل بکرم سنگھ آرمی چیف بننے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ انکاماضی داغدار ہے اور وہ صرف جموںکشمیر میں فرضی جھڑپوں میں ہی نہیں بلکہ خاتون کی دست درازی میں بھی ملوث رہے ہیں۔
یہ درخواست بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمیرل رام داس، سابق چیف الیکشن کمشنر این گوپالا سوامی، سینئر صحافی سیم راجپا اور دیوا شہایم کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ ساٹھ صفحات پر مشتمل اس پٹیشن میں جنرل بکرم سنگھ پر فرضی جھڑپوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ کانگو میں دو ہزار آٹھ کے دوران وہ ان فوجی افسران کیخلاف کارروائی کرنے سے قاصر رہے تھے جو وہاں امن فوج میں رہ کر دست درازی اور جنسی تشدد میں ملوث تھے۔ جنرل بکرم سنگھ کی تعیناتی کو محض سیاسی قرار دیکر انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی استدعا کی گئی تاہم یہ سب درخواستیں بے اثر رہیں اور بالآخر وہ بھارتی آرمی چیف کے عہدہ پر تعینات ہو گئے۔
جنرل بکرم سنگھ کی طرح بھارتی آرمی چیف کیلئے نئے نامزد آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ بھی اس وقت شدید تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ جو خود بھی عمر کے تنازعہ میں الجھے رہے ‘ نے نئے نامزد آرمی چیف پر انتہائی سنگین الزامات لگاتے ہوئے انہیں قاتلوں اور ڈاکووں کا سرپرست قرار دے دیااور کہا کہ جنرل دلبیر سنگھ مقبوضہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں سینکڑوںکشمیریوں کو شہید کرنے میں ملوث ہیں۔ بھارتی ریاست آسام میں ان کی انٹیلی جنس یونٹ نے غیرقانونی کارروائیاں کی تھیں لیکن جنرل دلبیر سنگھ نے اپنی یونٹ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جس پر جنرل (ر) وی کے سنگھ نے مشرقی کمان کے سربراہ کے طور پر ان کی تقرری روکنے کی کوشش کی تاہم موجودہ آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہونے دی اور ان کی پروموشن پر پابندی اٹھاتے ہوئے انہیں وائس چیف آف آرمی سٹاف بنا یا تھااس طرح سینئر ترین ہونے کے ناطے ان کے آرمی چیف بننے کی راہ ہموار ہوئی۔ ظاہری طور پر تو یہ کہاجارہا ہے۔
کانگریس نے جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کو آرمی چیف متعین کر کے بی جے پی کے سینے پر مونگ دلنے کی کوشش کی ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بی جے پی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ ان کے ہمرکاب ثابت ہوں گے۔ جنرل دلبیر سنگھ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انیس سوستاسی میں سری لنکامیں آپریشن پون میں سفاک کمانڈر کے طورپرسامنے آئے تھے۔ وہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کا خون بہانے والی انفنٹری بریگیڈ کی بھی کمان کرچکے ہیں اور مبینہ طور پر جنرل بکرم سنگھ کی طرح کشمیریوں کو قتل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوںمیں ملوث رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں جب نریندر مودی نے سخت گیر پاکستان مخالف سکیورٹی ٹیم اپنے ارد گرد اکٹھی کی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوںکے خلاف سخت اقدامات اٹھانے اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
General Dalbir Singh
تو یہ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کیلئے آئیڈیل ماحول ہو گا اور وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال مودی حکومت او ربھارتی فوجی قیادت کا ایک ساتھ کھڑا ہونا پاکستان کیلئے بھی ایک سبق ہے۔بھارت سرکار کی پاکستان مخالف سازشوں و اقدامات کامقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو بھی مل بیٹھ کر مضبوط پالیسی وضع کرنی چاہیے اور ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں اس کے بغیر وطن عزیز کو درپیش مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔