اور اب ضربِ عضب

Karachi Airport Attack

Karachi Airport Attack

المیزان (2001) شیر دل ( 2007) زلزلہ (2008) راہ حق (2008) راہ راست (2009) اور راہ نجات (2009) کے بعد ضربِ عضب۔ مذاکرات کی آخری قسط شاید کراچی ائیر پورٹ حملہ تھا۔ دیر سے ہی سہی فیصلہ بہر حال ہو گیا اور اس پر عمل بھی۔یقینا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے کیونکہ ” دل ہو مقتل میں تو پھر سر نہیں دیکھا جاتا۔ سرداری ہے بھی تو سرہی پر موقوف کہ سر کا تاج ہے اور تاج کا تعلق تو براہ راست سر کے ساتھ ہوتا ہے۔ سجتا بہر حال اسی کو ہے جوسچ کی خاطر ڈٹ جائے۔ چاہے سر تن سے جدا کر کے دار …پر ہی کیوں نہ لٹکا دیا جائے۔ کہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے ، رب کے سوا کسی کے آگے جھک نہیں سکتا۔ اگر جذبہ یہی ہو تو شاید انہی کے لئے محسن نے کیا اچھا کہا ہے۔

سورج کا خوف دل سے بھلا دینا چاہئے
اب اپنا سر سناں پہ سجا دینا چاہئے

اطلاعات یہی ہیں کہ فوج تاخیر نہیں چاہتی تھی۔ مزاکرات کا ”آخری موقع ”بھی نیم دلی سے مانا گیاکہ جانتے تھے یہ لاتوں کے بھوت ہیں۔پھر بھی صبر کیا گیااور مذاکرات کی حمایت کی گئی ۔مقصد ن لیگ ،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اور کچھ مذہبی جماعتوں کو مطمئن کرنا اور آئینہ دکھانا تھا۔ن لیگ کو تو شایداب” عقل”آہی گئی ہے ۔ہاں البتہ جماعت اسلامی نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے۔آپریشن کو مایوس کن قرار دینا واقعی بہت بڑا المیہ ہے۔ عا م انتخابات کے جھٹکے سے یہ لوگ اب تک نہیں سنبھلے ۔فرید پراچہ صاحب کا یہ فرمان بڑا حیران کن ہے کہ آئی ایس پی آر نے پہلے اعلان کیا اور وزارتِ داخلہ نے بعد میں،اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے۔

انکی جماعت سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے؟تحریک انصاف نے البتہ دبا دبا احتجاج کیا ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔مرکزی حکومت ان کی ہوتی تو وہ بھی یہی” فیصلہ ”کرتے ۔پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے بارے میں تازہ ترین اطلاع یہ کہ اس نے اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔بات اگر جمعیت کی ہو تو انکی پہلے ہی حکمران جماعت سے ٹھنی ہوئی ہے۔منا لیا گیا تو گول مول انداز میں حمایتی بیان آہی جائے گا۔باقی رہے مولانا سمیع الحق تو وہ اپنے بچوں کے خلاف آپریشن کی حمایت شاید قیامت تک نہ کر پائیںکہ جانتے ہیں جس دن حمایت کی ”قیامت”واقعی ٹوٹ پڑے گی۔جماعت ،جمعیت اور اسی قبیل کی دیگر مذہبی جماعتیںآپس میں تمام تر اختلافات کے باوجودطالبان کی حمایت پر یکسو بھی ہیں یک زبان بھی اور یک جان بھی۔یہ جان بڑی ظالم چیز ہے۔

خطے میں دہشت گردی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک نام فوراًذہن میں آئے گا ۔جی ہاںوہی جس کے لئے ہماری بعض مذہبی جماعتیں ”ضربِ مومن …ضرب ِ حق”کا گمراہ کن نعرہ بلند کرتی رہی ہیں ۔ ضیا ئی آمریت کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہنا بے جا نہ ہوگا۔اس دور کی تمام سوغاتوں کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں ”انتہا پسندی ،شدت پسندی اور تعصب کا عہدِ زریں”۔ایک ایسا ملک جسکا ایک بازو دشمنِ دیرینہ نے کاٹ کر الگ کر دیا ہوکیا اسے” ہوس ملک گیری ”زیب دیتی ہے۔جس کا اپنا گریبان دشمن کے ہاتھ میں ہوکیا اس کے لئے یہ مناسب تھا کہ وہ دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑاتا ۔دوسروں کا ناک صاف کرانے کیلئے رومال اٹھائے اٹھائے پھرنا کیا اس شخص کے لئے موزوں تھا کہ جس کے اپنے بچے کی ناک ہر وقت بہتی ہو ۔دوسروں کو گند صاف کرنے والے اپنی فتح کے ترانے گاتے ہوئے گھر لوٹے تو انکا اپنا گھر رُوڑھی(فلتھ ڈپو)بن چکا تھا۔کشمیر اور افغانستان اور غزوہ ہندکی فتح کے دعوے دار آج قوم کو بتائیں ناں کہ وہ کہاں کہاں اسلامی کا جھنڈا لہرا چکے ہیں ؟ ضرب عضب کے حوالے سے اطلاعات یہ ہے کہ اس کی پلاننگ کافی عرصہ پہلے کر لی گئی تھی۔

North Waziristan Operation

North Waziristan Operation

آپریشن کے ا ہداف گروہوں کو الگ کرنا،سیاسی حمایت حاصل کرنااورشہروں کو اس آپریشن کے ردِ عمل کو ناکام بنانا تھے۔اس سلسلہ میں فضل اللہ سے برگشتہ گروہوں کو الگ کر لیا گیاکہ فوج کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھی کہ کون سے گروپ فضل اللہ کا ساتھ نہیں دیں گے۔اس سب کا مقصد آپریشن کا زمینی پھیلاؤ روکنا تھا۔اس سے فوج کومقامی سطح پر جاسوسی میں بھی مدد ملنے کی توقع ہے۔دوسرا مرحلہ رازدارانہ سیاسی حمایت کا حصول سے متعلق تھا ۔سوتمام سیاسی جماعتوں کو (سوائے تحریک انصاف )اندر خانے اعتماد میں لیا گیا ۔دو ماہ قبل نواز عمران ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔تیسرے مرحلے میں ایک ماہ قبل ہی سے بڑے شہروںمیں سکیورٹی کو” بہتر ”بنایا جا رہا تھا۔اسی منصوبے کے تحت اتوارکے روز جب ایک طرف مسلح دستوں نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی کی تو اس سے پہلے ہی اسلام آبادکے تمام حساس مقامات پر فوج کے تازہ دم دستے تعینات کر دیئے گئے تھے۔اس طرح کے انتظامات ملک کے دیگر حصوں میں بھی کئے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستانیوں نے سو پیاز بھی کھائے اور سوجوتے بھی۔کیا قیامت ہے کہ پولیو کے قطرے پی کر دوسرے ملکوں میں داخلے کی اجازت ملتی ہے اور بیرونی دنیا پاکستان کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے۔

پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی المناک ہلاکت ،کھربوں ڈالز کا ملکی معیشت کوجھٹکااور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری ،بیرونی سرمایہ کار ی کا فقدان ،پاکستانی قوم کی جگ ہنسائی ….کس کس المیے کا رونا رویا جائے۔اگر اب بھی آپریشن نہ کیا جاتا تو کب یہ مرحلہ آتا؟میرا خیال ہے نواز شریف کوآپریشن کی حمایت کے حوالے سے ٹی وی پر قوم سے خطاب کے دوران وہی بات کرنی چاہئے جو بش نے ساری دنیا سے کہی تھی۔ہماری تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں۔پوری قوم کی دعا یہی کہ یہ آپریشن اپنے نام کی مناسبت سے کاری اور فیصلہ کن وار ثابت ہو ۔اور حضور اکرم کی ذات اورتلوا ر کے صدقے یہ مشن کامیابی سے ہمکنار ہو۔

عضب نامی یہ تلوار بدر کی فیصلہ کن لڑائی میں آنجنا ب کے ہاتھ میں تھی ۔دل کہتاہے کہ ہم بھی بدر جیسی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔انشاء اللہ۔ اب ایک شعر پاک فوج کے جوانوں کی نذر کرتا ہوں۔

وہی جواں ہے قبیلے کی انکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ،ضرب ہو کاری

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر : صفدر علی حیدری
(sahydri_5@yahoo.com)