پاکستان کی بد نصیبی یہ ہے کہ دور آمریت میں یہاں جمہوریت کے چاہنے والے آزادی اظہار اور سیاسی جدوجہد کی آزادی کیلئے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کیخلاف جدوجہد کے نام پر عوام کو ریاست و حکومت کیخلاف اکسا کر سڑکوں پر لاتے ہیں جس کے باعث عوام اور ریاست کے درمیان جبر اور جدوجہد کا شروع ہونے والا سلسلہ غداری کی بجائے جدوجہد کہلاتا ہے۔
جب اس جدوجہد کے نتیجے میں آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت بحال ہوجاتی ہے تو اقتدار میں آنے والی جمہوری سیاسی جماعت حلف اٹھاتے ہی جمہوریت کے حسن یعنی آزادی اظہار اور سیاسی جدوجہد کی آزادی کو اپنی بقا و حکمرانی کیلئے خطرہ جانتے ہوئے دیگر سیاسی و جمہوری قوتوں کو اس حق سے محروم کرنے کیلئے پر تولنے اور آمرانہ اقدامات کرنے لگتی ہیں۔
ان حالات میں حکومت کیخلاف جدوجہد کو اس بار ”غداری “ کا نام دیکر ریاستی جبر و قوت کا بلا دریغ استعمال کیا جاتا ہے جو یقینا جمہوریت کے منافی اور آمریت سے بدترین طرز عمل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے موجودہ حکومت کیخلاف پاکستان آکر تحریک چلانے کی دھمکی سے لگتا یوں ہے کہ واقعی حکومت اپنے مستقبل کے حوالے سے اس قدر پریشانی کا شکار ہوگئی ہے کہ اس نے پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی جدوجہد کو غداری قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے حتیٰ کہ طاہرالقادری کو پاکستان آنے پر گرفتار کئے جانے ‘ نظر بند کرنے یا حفاظتی حراست تک میں لئے جانے کے منصوبے زیر غور ہیں۔
Tahir ul Qadri
جبکہ طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کیلئے گزشتہ روز حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میں ادارہ منہاج القرآن پر حفاظتی بیریئرز اور رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر پنجاب پولیس نے ریاستی جبر اور تشدد کی روایت کو دہرایا اس کی مثال جنرل ضیاء کی آمریت میں بھی نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔
پولیس نے نہتے طلباءو طالبات پر فائرنگ کرکے مشرف دور کے لال مسجد آپریشن کے دوران فوج کے ہاتھوں طالبات کی ہلاکت کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کو بھی زیریں درجہ دے دیا کیونکہ اس وقت مشرف حکومت نے لال مسجد انتظامیہ سے طویل مذاکرات ‘ طلباءو طالبات کو لال مسجد سے باہر نکل جانے کی مہلت کی فراہمی اور لال مسجد میں موجود اسلحہ برداروں کی فائرنگ سے فوجی افسر کی ہلاکت کے بعد آپریشن کا آغاز کتا تھا مگر پنجاب پولیس نے تو بناءکسی اطلاع ومہلت رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر ادارہ منہاج القرآن پر شبخون مارکر فائرنگ سے دو خواتین سمیت 8افراد کو قتل کرکے جو جمہوری روایت قائم کی ہے۔
یہ اس کا نتیجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کے حکم پر مجبور ہونا پڑا لیکن عسکریت پسندوں ‘ دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں سے روابط کے حوالے سے بدنام پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ کی جانب سے منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں ملک میں فتنہ پھیلانے کیلئے قرآن پاک پر حلف لئے جانے کا الزام اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک مسلم لےگ (ن) غیر ریاستی عناصر سے تعلقات اور ان کے نظریات کے حامل افراد سے نجات نہیں پائے گی نہ تو وہ ملک کو دہشتگردی سے نجات دلاسکتی ہے۔
نہ ہی اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکتی ہے بلکہ قرائن بتارہے ہیں کہ اس عید پر حکومت کی قربانی کی شیخ رشید کی پیشنگوئی شاید حقیقت میں تبدیل ہوسکتی ہے دوسری جانب لاہور واقعہ کیخلاف متحدہ قومی موومنٹ نے آج یوم سوگ کا اعلان کر کے مرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور حکومت کی آمرانہ پالیسی مخالفت کا ثبوت دیا ہے مگر سوگ کو سوگ ہی رہنا چاہئے۔
MQM Strike
سوگ کی ہڑتال یا احتجاج میں تبدیلی اور کاروبار و تجارت کی بندش نہ تو ملک و قوم کے مفاد میں ہے اور نہ ہی متحدہ کی ساکھ و شہرت اور مستقبل کیلئے بہتر ثابت ہو گی۔