قضایائے امیرالمومنین میں سے صرف دو قضئے یہاں نقل کئے جا رہے ہیں۔ جن کو عُلماء فریقین نے نقل کیا ہے۔ اسعد ابنِ ابراہیم اودبیلی مالکی جو علمائے اہلسنت سے ہیں، وہ عمار ابن یاسِر اور زید ابن اَرقم سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ایک روز ایوانِ قضا میں تشریف فرما تھے ہم سب آپ کی خدمت میں موجود تھے کہ ناگہاں ایک شوروغُل کی آواز سُنائی دی۔
Medical story
امیرالمومنین نے عمّا ر سے فرمایا کہ باہر جا کر اِس فریادی کو حاضر کرو۔ عمار کہتے ہیں میں باہر گیا اور ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر بیٹھی فریاد کر رہی تھی۔ اور خدا سے کہ رہی تھی ۔ اے فریاد رسِ بیکساں ! میں تجھ سے انصاف طلب ہوں اور تیرے دوست کو تجھ تک پہونچنے کا وسیلہ قرار دے رہی ہوں۔ مجھے اس ذِلت سے نجات دے اور تو ہی عِزّت بخشنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کثیر جماعت اُونٹ کے گِرد شمشیر برہنہ جمع ہے۔ کچھ لوگ اس کی موافقت اور حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا ، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا حکم ہے کہ تم لوگ ایوانِ قضا میں چلو۔ وہ سب لوگ اس عورت کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے۔ ایک مجمع کثیر تماشائیوں کا جمع ہو گیا۔ امیرالمومنین کھڑے ہو گئے۔ اور حمد و ثناء خدا و ستائشِ محمد مصطفٰی کے بعد فرمایا! بیان کرو کہ کیا واقعہ ہے اور یہ عورت کیا کہتی ہے۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا، یا امیرالمومنین ! اِس قضیہ کا تعلق مجھ سے ہے۔ میں اِس لڑکی کا باپ ہوں، عرب کے نامی گرامی معزز و متموّل مجھ سے اِسکی خواستگاری کرتے تھے مگر اِس نے مجھے ذلیل کر دیا۔
امیرالمومنین نے لڑکی کی طرف ’رُخ ‘ کیا اور فرمایا کہ جو کچھ تیرا باپ کہتا ہے کیا یہ سچ ہے؟ لڑکی روئی اور چِلائی، یا حضرت! پروردگار کی قَسم میں اپنے باپ کی بے عزتی کا باعث نہیں ہوئی ہوں۔ بوڑھا باپ آگے بڑھا اور بولا یہ لڑکی غلط کہتی ہے۔ یہ بے شوہر قانونی کے حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تو، حاملہ نہیں ہے اور کیا تیرا باپ جھوٹ بول رہا ہے۔ آقا یہ سچ ہے کہ میں شوہر نہیں رکھتی لیکن آپ کے حق کی قسم، میں کسی خیانت کی مرتکب نہیں ہوں۔ پھر امیرالمومنین نے کوفہ کی ایک مشہور ’دایہ‘ کو بُلوایا اور کہا کہ اس کو پَسِ پردہ لے جا کر جائزہ لو اور مجھے صحیح حالات سے مطلع کرو۔ ’دایہ ‘ لڑکی کو پسِ پردہ لے گئی بعدِ تحقیق خدمت ِ امیرالمومنین میں نہایت حیرت سے عرض کرنے لگی۔ مولا! یہ لڑکی بے گناہ ہے کیونکہ ’باکرہ‘ ہے کسی مرد سے ہمبستر نہیں ہوئی مگرپھر بھی حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ایک برف کا ٹکڑا کہیں سے لا سکتاہے۔
لڑکی کے باپ نے کہا کہ ہمارے شہر میں اس زمانہ میں بھی برف بکثرت ملتا ہے مگر اس قدر جلد وہاں سے نہیں آ سکتا۔۔! امیرالمومنین نے بہ طریقِ اعجاز ہاتھ بڑھایا اور قطعہ برف ہاتھ میں تھا۔’دایہ‘ سے فرمایا کہ لڑکی کو مسجد سے باہر لے جاوٴ اور ظَرف میں بَرف رکھ کر لڑکی کو برہنہ اس پر بٹھا دو اور جو کچھ خارج ہو مطلع کرو۔ ’دایہ‘ لڑکی کو تنہائی میں لے گئی، برف پر بٹھایا، تھوڑی دیر میں ایک سانپ خارج ہوا۔ ’دایہ ‘ نے لے جا کر امیرالمومنین کو دِکھلایا۔ لوگوں نے جب دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ پھر امیرالمومنین نے لڑکی کے باپ سے فرمایا کہ تیری لڑکی بے گناہ ہے۔ کیونکہ ایک کیڑہ تالاب میں اس کے نہاتے وقت ’داخل رحم‘ ہو گیا۔ جس نے اندر ہی اندر پرورش پا کر یہ صورت اختیار کی ( یہ تھی بغیر ایکسرے کے طبیبِ روحانی و جسمانی کی مکمل تشخیص) داستان دیگر:۔ اِس واقعہ کو یا فعی نے اپنی مشہور کتاب روضة الریاحین میں صفحہ ۴۲ پر لکھا ہے۔ ایک مرتبہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب، بصرہ کی ایک شاہراہ سے گذر رہے تھے دیکھا ایک مقام پر کثیر مجمع ہے اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے ہیں ، آپ بھی بڑھے اور دیکھا کہ مجمع کے درمیان ایک خوش پوش، خوش رو جوان ہے۔ لوگ شیشیوں میں کوئی اپنا خون، کوئی اپنا ادرار(پیشاب) لئے اس کو دکھلا رہے ہیں۔ وہ ہر ایک کو اُس کی مرض کے مطابق دوا تجویز کررہا ہے۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ بڑا مشہور و معروف حاذِق طبیب ہے۔
امیرالمومنین آگے بڑھے، سلام کیا، اور فرمایا! کیا دردِ گناہ کی بھی کوئی دوا آپ کے پاس ہے؟ طبیب:۔ (بغور دیکھ کر بولا) گناہ بھی کوئی درد یا بیماری ہے؟ امیرالمومنین:۔ نے فرمایا، ہاں۔ گناہ بڑی مُہلک تَرین بیماری ہے طبیب:۔ تا دیر سر جھکائے سوچتا رہا، بعد تامل کہا۔ اگر گناہ بیماری ہے تو کیا کوئی اسکا علاج آپ کے پاس ہے؟ امیرالمومنین:۔ بیشک میں گناہ کا علاج جانتا ہوں ا ور درد کی دوا رکھتا ہوں۔ طبیب:۔ ذرا میں بھی سنوں کہ اس کی کیا دوا ہے۔ اور کون سا نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اسکا علاج کرتے ہیں۔ امیرالمومنین:۔ (طبیب سے فرمایا) اچھا اُٹھو اور آوٴ، ذرا میرے ہمراہ ’باغِ ایمان میں چلو، وہاں پہنچ کر ’نیت کے درخت کے کچھ ریشے۔ دانہ پشیمانی قدرے۔برگِ تدبر قدرے۔ تخم پرہیزگاری قدرے۔ ثمر فہم قدرے۔ شاخہائے یقین قدرے۔ مغز اِخلاص قدرے۔ پوست سعئی قدرے۔ زہر مُہرہ تواضع مختصرً۱ اور توبہ کا پچھلا حصہ لو ترکیب:۔اِن سب دواوٴں کو باہوش و حواس اِطمینان قلب سے توفیق کے ہاتھوں اور تصدیق کی اُنگلیوں سے تحقیق کے پیالہ میں ڈالو۔ اور آنکھوں کے پانی میں بھگو دو۔ کافی دیر کے بعد پھر سب کو امید کی پتیلی (دیگچی) میں ڈال کر شوق کی آگ میں جوش دو۔ اس قدر کہ مادئہ فاسدہ فنا ہو جائے اور خالص چیز رہ جائے۔ اِس کے بعد تسلیم و رضا کی طشتری میں رکھ کر توبہ و استغفار کی پھونکوں سے ٹھنڈا کرو۔
پھر اسے ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہو ۔ پی لو‘ ۔ یہ ہے وہ دوا جو گناہ کے درد کو دفع اور مصیبت کے زخموں کو بھر دیتی ہے۔ پھر کوئی درد یا زخم کا اثر باقی نہیں رہتا۔ طبیب یہ سن کر حیران ہو گیا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر وہ آگے بڑھ کر امیرالمومنین کے قدموں پر گر گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیغمر اسلام خاتم المرسلین جو اپنی زمانہ حیات بابرکات میں امراض روحانی و جسمانی کے حقیقی طبیب تھے۔ جب بہ اشارہ حبیب محبوب بزم لاھوتی کی طرف مائل ہوا تو لطفِ خداوندی کا تقاضہ ہوا کہ اپنے بندوں کو بے سرپرست نہ چھوڑے، چنانچہ غروب آفتاب سے قبل ہی چند ستارونکی روشنی کا انتظام فرمایا تا کہ بندوں کے روحانی اور جسمانی امراض کا مداوا ہوتا رہے، ہر دور کے اسلامی دانشوروں نے آئمہ طاہرین کے طبی فرمان کو بھی کتابی صورت میں اکثر پیش کیا ہے ازاں جملہ طب النبی۔ طِب الرضا۔ طب الائمہ ہے جس میں طب الرضا زیادہ معروف ہے۔ جو امام علی رضا علیہ السلام نے مامون رشید ( خلیفہ بنی عباسیہ) کی خواہش پر تحریر فرمائی جس کو مامون نے سونے کے پانی سے لکھوایا۔ جس کی وجہ سے کتاب نے رسالہ ذہبیہ نام پایا۔ مامون کے دور میں اگرچہ مشہور و معروف اطباء موجود تھے۔ مگر مامون رشید ہمیشہ امام علی رضا علیہ السلام کی طرف رجوع کرتا ۔