غزوہ بدر 17رمضان سنہ ٢ ھ

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

اہل سیر کی اصطلاح میں ” غزوہ” اس فوجی مہم کو کہا جاتاہے۔ جس میں آنحضور ۖ خود بنفس نفیس تشریف لے گئے ہوں ۔ خواہ جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اور”سریہ” وہ فوجی مہم ہے جس میں آپ خود تشریف نہ لے گئے ہوں ۔ بلکہ کسی اور کی قیادت میں لشکر روانہ کیا ہو۔مکے میں اسلام اور کفر کی کشمکش بارہ تیرہ سال تک مسلسل رہی۔ کفار کے ظلم و ستم سے بچتے ہوئے کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے ۔ اور پھر چند سال بعد مدینے کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ۔ تو جیسے تیسے ممکن ہوا ، مسلمان یہاں ہجرت کرکے آگئے ۔ اب ظاہر ہے اہل مکہ انہیں چین سے تو نہیں رہنے دے سکتے تھے ۔مشرکین مکہ نے مدینے کے سربر آوردہ یہودی لیڈر عبداللہ بن ابی کو دھمکی آمیز خط لکھاکہ تم نے ہمارے بھاگے ہوئے لوگوں کو پناہ دے کر گویا ہم سے ٹکر لینے کااعلان کیا ہے۔

ابن ابی تو پہلے ہی رسول اقدسۖ کی عزت و اکرام سے جلا بھنا بیٹھا تھا ۔ اس خط کے ملتے ہی اس نے اپنی ریشہ دوانیاں شروع کردی تھیں ۔ نبی پاک کو منافقوں کی شرارتوں سے جونہی آگاہی ہوئی ۔ آپ نے ان کو سخت الفاظ میں تنبیہ کردی ، جس سے وہ خوفزدہ ہوگئے ۔ قریش کی دھمکی رسول پاک تک بھی پہنچی تھی ۔ چنانچہ آپ نے راتوں کو پہرہ دلوانا شروع کردیا تاکہ کہیں قریش رات کی تاریکی میں مدینے پر حملہ نہ کردیں ۔ اور یہ خوف کی کیفیت برابر طاری رہی ۔ تاآنکہ حق تعالیٰ نے آپ کو مکمل حفاظت کایقین دلادیا۔
”اے رسول جو کچھ بھی تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اسے من و عن پہنچادو۔

اگر تم نے ایسا نہ کیا توتم نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ، اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والاہے ۔بے شک اللہ کافروں کو تمہارے مقابل میں کامیاب نہیں ہونے دے گا(مائدہ٦٧) اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ نے تمام مسلح نگرانوں کو ہٹا دیا ۔اہل مدینہ بھی قریشیوںکی طرف سے یلغار سے غافل نہ رہے ۔ اس لیے وہ ہمہ وقت مسلح رہتے تھے ۔انہی ایام میں حق تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کو دشمنوں سے قتال کی اجازت عطا فرما دی سورہ حج میں ارشاد ہوا : ”اجازت دی جارہی ہے ان لوگوں کو جن سے کافر جنگ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ مظلوم ہیںبیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے(٣٩) یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا’ صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا رب فقط اللہ ہے٭ آل عمران ٤٠٣٩بدر کا محل وقوع اور نبی اقدسۖ کی منصوبہ بن مدینے سے تقریباً اسی میل مکے کے راستے پر واقع ایک بستی جس کا نام بدر تھا ۔ یہ دراصل وہ تجارتی شاہراہ تھی جہاں سے اہل مکہ کا سب سے بڑا تجارتی قافلہ گزرا کرتاتھا۔

جن کی حکمت عملی کے تحت اس شاہراہ پر مسلمانوں کا قبضہ بہت ضروری تھا کیونکہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ سے دشمن کا ناطقہ بند نہیں کیا جاسکتا تھا ۔چنانچہ جہاد کی اجازت ملتے ہی نبی اقدس ۖ نے آگے بڑھ کر قریش کی اس شاہراہ تجارت کو قابو کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ شاہراہ بحر احمر کے کنارے کنارے شام تک چلی جاتی تھی ۔ زمانہ جاہلیت میں بدر میں ہر سال یکم ذی قعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگتا تھا ۔ یہاں بنو ضمرہ آباد تھے، جن کی ایک شاخ بنو غفار تھے ، حضرت ابو ذر غفاری اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔بدر کے علاقے میں کئی کنویں اور باغات آباد تھے ۔ جہاں قافلے عموماً پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ اس طرح اس شاہرہ کی اہمیت بہت نمایاں تھی ۔اسی طرح اس شاہراہ تک جو قبائل راستے میں آتے تھے۔

انہیں بھی نبی ۖ نے اپنے ساتھ ملانے کی منصوبہ بندی بھی کی تاکہ وقت تک آنے پر یہ قبائل روکاوٹ نہ بن سکیں ۔اور دوسری طرف قریش کو بھی کان ہوجائیں کہ وہ اللہ و رسول سے بغاوت کرکے فائدے میں نہیں رہیں گے ۔ سنة ٢ ھ جمادی الاولی میں نبی کریمۖ کو معلوم ہوا کہ قریش کاایک بہت بڑا تجارتی قافلہ شام جارہا ہے ۔ تو آپ نے ان کو قابو کرنے کی غرض سے اپنے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین کا قافلہ لے کرذوالعشیرہ پہنچے ۔ لیکن آپ کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی یہ قافلہ حدود سے گزر چکا تھا ۔ چنانچہ واپسی پر آپ نے بنو مدلج اور ان کے حلیف بنو ضمرہ سے عدم جنگ کا معاہدہ کیا۔

غزوہ بدر الکبریٰ کا سبب تقریباً تین ساڑھے تین ماہ کے بعد یہی قافلہ واپس مکے آرہاتھا ۔ اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت تھی ۔ ایک ہزار اونٹ جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار کی مالیت کا ساز وسامان لدا ہوا تھا ۔ اور اس کی حفاظت کیلئے صرف چالیس آدمی متعین تھے ۔اس قافلے کی واپسی کی خبر طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید نے دی ۔اہل مدینہ کیلئے یہ بڑا زریں موقع تھا ۔ اس لیے نبی اقدسۖ نے اعلان عام فرمادیا کہ قریش کاایک بڑا قافلہ مال و دولت لیے چلا آرہاہے ۔ اس کیلئے نکل پڑو ۔ ہوسکتاہے اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت تمہارے حوالے کردے ۔لیکن روانگی ضروری قرار نہیں دی تھی ۔ اور اس امر کی بھی توقع نہ تھی کہ آگے چل کر قافلے کی بجائے لشکر قریش کے ساتھ میدان بدر میں معرکہ آرائی کرنا پڑے گی ۔ اسی لیے بہت سے صحابہ کرام اس مہم میں شریک ہی نہ ہوئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو نائب امام مقرر فرمایا۔

آپ کے ساتھ نکلنے والوں کی مجاہدین کی تعداد تین سو سے کچھ ہی اوپر تھی ۔جن میں ٨٢ سے ایک دو کم یا زیادہ مہاجرین تھے اور بقیہ انصار ۔یاد رہے کہ اہل بدر کی تعداد بھی طالوت کے لشکر کے برابر تھی جب وہ جالوت کے مقابل نکلے تھے ۔ اس لشکر نے جنگ کی کوئی تیاری نہ کی تھی ، چنانچہ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے ۔ جن پر باری باری سوار ہوا جاتاتھا۔منزل مقصود بدر تھا۔ جب مکے خبر پہنچتی ہے۔

دوسری طرف مکی قافلے کا سالار ابوسفیان مسلمانوں کے تعاقب سے غافل نہ تھا ۔ اسے جب مسلمانوں کی نقل و حرکت کی خبر ملی تو اس نے ایک کو مکے بھیجا کہ وہاںجا کر قافلے کی حفاظت کیلے قریش میں نفیر عام کی صدا لگائے ۔ چنانچہ اس آدمی نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چپڑی ، کجاوہ الٹا، کرتا پھاڑا اور بلندی سے چیخ و پکار کی کہ تمہارے قافلے پر محمدۖ اور ان کے ساتھی حملہ کرنے آرہے ہیں ۔یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے ۔ قافلے کی اہمیت و مالیت کے پیش نظر سارے مکے کے بہت سے لوگ تیار ہوگئے۔ جو خود نہیں جاسکتے تھے انہوں نے اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیا اس طرح گویا سبھی لوگ نکل پڑے ۔خصوصاً قریشی سرداروں میں سے کوئی پیچھے نہ رہا ۔ صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک قرضدار کو بھیجا ۔ گردو پیش کے قبائل کو بھی قریش نے بھرتی کیا۔

البتہ بنو عدی قبیلے کا کوئی آدمی اس مہم میں شریک نہیں ہوا۔اس طرح تیرہ سو کی تعداد میں لوگ اس قافلے میں نکل پڑے ۔ شیطان نے بنو مدلجی سردار کی شکل میں قریشیوں کی حوصلہ افزائی کی ۔اور یہ لشکر ابوجہل کی قیادت میں پورے کرو فرّ اور غرور و تکبر کے ساتھ اتراتاہوا ، اپنی شان دکھاتا ہوا ، اپنی دھار اور تلوار لہراتا ہوا ، ، جوش انتقام سے چُور اور جاہلانہ حمیت و غیرت سے مخمور اس بات پر کچکچاتا ہوا کہ مسلمانوںکو اہل مکہ کے قافلے پر آنکھ اٹھانے کی جرات کیسے ہوئی؟ مدینے کی جانب روانہ ہوا۔دوسری طرف سالار قافلہ ابو سفیان کو راستے میں مدنی لشکر کی آمد کا جب پتہ چلا ، تو اس نے قافلے کا رخ مغرب کی جانب موڑ کر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا ۔ اور بدر سے گزرنے والی کاروانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑ دیا ۔اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچا لیا ۔ اور فوراً ہی مکی لشکر کو جو جحفہ کے مقام تک پہنچ چکا تھا پیغام بھیج دیاکہ ہمارا قافلہ خطرے کی حد سے باہر نکل آیاہے ۔لہذا اب واپس چلے جاؤ ۔ ہم بہت جلد خیر و عافیت سے مکے پہنچنے والے ہیں۔

ابوجہل کی بدبختی ابوسفیان کا پیغام سن کر مکی لشکر نے واپس جانے کاارادہ کرلیا لیکن فرعون امت ابوجہل جس کی تقدیر اسے مکے سے کھینچ کر لارہی تھی ، اکڑ گیااور نہایت کبرو غرور سے بولا: واللہ ہم یہاں سے ہرگز واپس نہ جائیں گے ۔ بدر جاکر تین دن وہاں ٹھہریں گے ۔ ہلہ گلہ کریں گے ۔ اونٹ ذبح کریں گے ۔ شرابیں پئیں گے ۔ لونڈیوں کا ناچ گانا سنیں گے ۔سارا عرب ہماری شان و شوکت دیکھے گا ۔ اس پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی اور مدینے والوں پر آئندہ کیلئے دہشت طاری کردیں گے ۔ تاکہ آئے دن ان کے تعاقب کا خطرہ ختم ہوجائے ۔ بنو زہرہ کے سردار اخنس بن شریق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو لیکن ابوجہل وغیرہ نے اس کی رائے نہیں مانی تو وہ اپنے قبیلے کے تین سو جوانوں کو لے کر واپس چلا گیا ۔بعد میں جب جنگ بدر کا نتیجہ سامنے آیا تو بنو زہرہ اپنے سردار کی رائے پر حددرجہ شاداں و فرحاںہوئے ۔ بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں لیکن ابو جہل نے بڑی سختی سے انہیں روک لیا۔

نئی صورتحال پر نبی کریمۖ کا مشورہ ادھر جب اس نئی صورتحال سے رسول اقدسۖ کو آگاہی ہوئی اور آپ نے ان اطلاعات کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا تو آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب ایک خونریز ٹکراؤ کاوقت آگیا ہے ۔ کیونکہ اگر مکی لشکر کو نہ روکاگیا تواس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ مدینے پر یلغار نہیں کرے گا ۔ حالات کی اس اچانک اور پرُ خطر تبدیلی کے پیش نظر آنحضورۖ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد فرمائی اور ان سے مشورہ کیا کہ اب کیاکیاجائے ؟۔ کچھ لوگوں کو اس غیر متوقع صورتحال سے بہت گھبراہٹ ہوئی کہ ان حالات میں جبکہ ہم کسی جنگی منصوبہ بندی کے بغیر یہاں آئے ہیں، اگر لڑائی لڑی تو نتیجہ بہت خوفناک ہوسکتا ہے۔کیونکہ ان کی بے سرو سامانی واضح تھی ۔لیکن جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہم ودیگر مہاجرین نے اپنے روایتی ولولے اور جوش کے ساتھ آنحضور اقدسۖ کو اپنے تعاون کایقین دلایا۔

اپنے جان و مال آپ کے حکم پر نچھاور کردینے کا عندیہ دیالیکن یہ تینوں اصحاب مہاجرین سے تھے۔ جن کی لشکر میں تعداد کم تھی۔آنحضور اقدس ۖ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں، کیونکہ معرکے کا اصل بوجھ انہی کے شانوں پر پڑنے والا تھا۔ تعداد کے لحاظ سے بھی ان کی اکثریت تھی ۔ اس لیے پھر فرمایا لوگو! مجھے مشورہ دو ۔آنحضورۖ کی منشا انصار نے بھانپ لی۔ اس پر انصار کے علمبردار کمانڈر حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ بخدا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور ہماری رائے جانناچاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ انہوں نے کہا۔

اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ۔ آپ کی تصدیق دل و جان سے کی ہے ۔ آپ جس شریعت کو لے کر تشریف لائے ہیں اس پر ہم نے سمع و طاعت کا عہدو میثاق کیا ہے ۔ لہذا اے اللہ کے رسول ۔ آپ کا جو ارادہ ہے، اس کیلئے پیش قدمی فرمائیے۔ آپ ہمیں اپنے مہاجربھائیوں سے ہرگز پیچھے نہیں پائیں گے۔ آپ ہمیں اس دریامیں کودنے کاحکم دیں گے توہم اس میں بلاتامل کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا ۔ہماری اطاعت گزاری سے یقینا آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ۔آپ جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق توڑ لیں ۔ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں ۔اور جو کچھ آپ لیں گے وہ ہمارے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہوگا جسے آپ چھوڑ دیں گے ۔اور اس معاملہ میں جو آپ فیصلہ فرمائیں گے ، ہمارا فیصلہ اسی کے تابع ہوگا۔

انصار و مہاجرین کے ان ایمان پرور بیانات سے آنحضور کارخ انور خوشی سے چمک اٹھا ۔اور آپ خوشی خوشی مکی لشکر کے تعاقب میں چل پڑے ۔اور آپ نے فرمایا ”خوشی خوشی بڑھتے چلو ۔ حق تعالیٰ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے ۔ واللہ اس وقت گویامیں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں ”بدر کی طرف لشکر اسلام کی روانگی جس طرح کہ ذکر کیا جا چکا کہ یہ مشورہ فرمایاگیا اس وقت آپ وادی صفراء کے قریب تھے۔ مشورہ کے بعد آپ وہاں سے چلے اورثنایا اور الدبہ سے گزرکر حنان کو اپنی دائیں جانب چھوڑ دیا جو ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلہ بلکہ پہاڑ ہے ،اور بدر کے قریب نزول فرمایا ۔ یہاں آپ نے حضرت ابوبکرصدیق کو ساتھ لیا اور فراہمی اطلاعات کیلئے خود نکل پڑے ۔اور دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لیا۔

Hazrat Ali AS

Hazrat Ali AS

ایک بوڑھے عرب سے کچھ پوچھا۔ پھر شام کو آپ نے دشمن کے حالات کا پتہ لگانے کیلئے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے ہمراہ چند لوگ بھیجے جنہوں نے بدر کے چشمے سے دو غلاموں کو گرفتار کرلیا جو مکی لشکر کیلئے پانی بھر رہے تھے ۔ان کی باتوں سے لشکر کی تعداد کااندازہ لگایا کہ مکی لشکر کی تعداد نو سو سے ایک ہزار ہے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ معززین قریش میں سے کون کون ہیں ۔ تو انہوں نے ربیعہ اس کے دونوں لڑکے عُتبہ اور شیبہ ، ابوالبختری بن ہشام، حکیم بن حزام ، نوفل بن خویلد ، حارث بن عامر ، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، ابوجہل ، امیہ بن خلف وغیرہ کے نام گنوائے ۔ رسول اقدسۖ نے فرمایا: مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے مقابلے میں لا ڈالا ہے۔

قائد اسلام کیلئے عریش (سائبان)کا اہتمام اس کے بعد صحابہ کرام نے نبی ۖ کیلئے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنادیا جہاں سے پورا لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہاں سے نگرانی بھی کی جاسکتی تھی ۔ اور لشکر کو ہدایات جاری کی جاسکتی تھیں ۔آنحضور ۖ کے اس مرکز قیادت کی حفاظت کیلئے حضرت سعد بن معاذ کی کمان میں انصاری نوجوانوں کاایک دستہ متعین کردیا گیا ۔ترکی دور میں وہاں ایک مسجد بنادی گئی تھی جس کا نام مسجد غمامہ رکھاگیا تھا۔ جبکہ اس کا اصل نام مسجد العریش ہے۔عریش کا معنی سائبان ہے ۔اس مسجد کے قریب بدر کا معروف چشمہ واقع ہے ۔١٩٨٣ میں راقم کو جب مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا ، ایک قافلے کے ہمراہ یہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اب سنا ہے کہ جدید تعمیر ہوچکی ہے۔

میدان جنگ کا نقشہ اس کے بعد رسول پاک خود میدان جنگ میں تشریف لے گئے ،اور لشکر کی ترتیب فرمائی ۔وہاں آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جا رہے تھے کہ کل یہ جگہ فلاں کافر کی قتل گاہ بنے گی اور اس جگہ فلاں مردار ہوگا ۔مشرکین نے اسلامی لشکر سے پہلے پہنچ کر بدر کے کنوؤں پر قبضہ کرلیاتھا ۔اور وہ زمین بھی پختہ تھی ۔ مسلمانوں کالشکر جہاں ٹھہرا وہاں پانی بھی نہیں تھا اور زمین بھی ریتلی تھی جس پر پاؤں جمتا نہیں تھا ۔ حالات غیر متوقع طور پر مایوس کن ہورہے تھے ۔خوف کے مارے آنکھوں سے نیند اڑ چکی تھی ۔ دلوں میں اندیشے اور وسوسے گھر کرچکے تھے۔ حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام میں میدان بدر کی دعا کے نام سے بڑی دلچسپ صورت کھینچی گئی ہے۔
یہ تشنہ لب جماعت جب یہاں پر رک گئی آکر
دعا کی صحرا نے دونوں ہاتھ پھیلا کر
اے صحرا کو آتش ناک چہرہ بخشنے والے
رخ خورشید کو کرنوں کا سہرا بخشنے والے
خبر کیا تھی اک دن ایسا آئے گا
کہ تیرا ساقی کوثر یہاں تشریف لائے گا
خبر کیا تھی یہاں تیرے غازی آکے ٹھہریں گے
شہید آرام فرمائیں گے غازی آکے ٹھہریں گے
بنایا جائیگا فرش عبادت میرے دامن کو
خبر کیا تھی ملے گی یہ سعادت میرے دامن کو
خبر کیا ہوتی تو میں شبنم کے قطرے جمع کر رکھتا
چھپا کر ایک گوشے میں مصفا حوض بھر رکھتا
وہ پانی ان مقدس مہمانوں کو پلا دیتا
میں اپنی تشنگی دیدار حضرت سے بجھا لیتا
مرے سر پر سے گزرا نوح کے طوفان کا پانی
تاسف ہے کہ مجھ سے ہوگئی اس وقت نادانی
اگر کرتا میں اس پانی کی تھوڑی سی نگہداری
تو ہوجاتا مری آنکھوں سے چشموں کی طرح جاری
یہ ستر اونٹ دو گھوڑے یہاں سیراب ہوجاتے
مجاھد بھی وضو کرتے نہاتے غسل فرماتے
حضور ، ساقی کوثر ، میری کچھ لاج ، رہ جاتی
مری عزت مری شرم عقیدت آج رہ جاتی
تیرے محبوب کے پیارے قدم اس خاک پہ آئے
الہی حکم دے سورج کو اب آتش نہ برسائے
اب اگر میرے دامن سے ہوائے گرم آئے گی
تو مجھ کو رحمة اللعالمین سے شرم آئے گی
برائے چند ساعت ابر باران بھیج دے یا رب
بہاراں بھیج دے یا رب بہاراں بھیج دے یارب

باران رحمت کا نزال یہ مایوس کن صورتحال اس وقت بدل گئی جب یکایک آسمان پر بادل چھا گئے اور اللہ کی مدد آگئی ۔باران رحمت نازل ہوگئی ۔اس بارش سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا ۔ ان کی تھکاوٹ دور ہوگئی ۔ نیند کے جھونکے آنے سے طبیعتوں میں شادابی آگئی۔شیطان کے وسوسوں کی آلودگی دور ہوگئی ۔ ریتلی زمین پکے فرش کی طرح ہوگئی ۔پینے کیلئے پانی حوض بنا کر جمع کرلیا گیا ۔ بارش میں نہانے سے صحت تروتازہ ہوگئی ۔یوں وہاں قیام خوشگوار ہوگیا اور دل میں مضبوط ہوگئے ۔ اور انہوں نے پیشقدمی کرکے دشمن کے قریب ترین چشمہ پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا ۔اور حوض بنا کر باقی تمام چشموں کو بند کردیا تاکہ کافروں کو پانی کی سپلائی بند ہوجائے۔ اس بارش کااللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں یوں ذکر فرمایا۔

”جب اللہ نے تم پر اپنی طرف سے اطمینان و بے خوفی کیلئے نیند طاری کردی ۔اور تم پر آسمان سے بارش نازل فرما دی ۔تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے پاک کردے۔ اور تم سے شیطان کی گندگی دور کردے ۔ اور تمہارے دل مضبوط کردے اور تمہارے قدم جمادے ۔جبکہ یہی بارش کافروں کیلئے مایوسی کاسبب بن گئی ۔ ان کی پکی زمین کیچڑ میں تبدیل ہوگئی ۔اور ان کی پیش قدمی رُک گئی ۔اور پانی کے چشمے ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں چلے گئے۔

قریشی کیمپ میں خوف و ہراس اس حالت میں کفار نے وادی بدر کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری کہ خوف و حزن ان کے دلوں پر مسلط تھا ۔ اور نفسیاتی طور پر وہ جنگ لڑنے سے پہلے مقابلہ ہار چکے تھے ۔ اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے ۔ ایک گروہ مسلمانوں کے حوض کی جانب بڑھا۔اس وقت صحابہ کرام میں بے چینی پھیل گئی ۔ وہ آگے بڑھ کر انہیں روکنا چاہتے تھے ۔ مگر نبی کریم ۖنے فرمایا انہیں چھوڑ دو ۔ ان کفار میں سے جس نے بھی اس حوض سے پانی پیا وہ اس جنگ میںمارا گیا۔ صرف حکیم بن حزام بچا جو بعد میں مسلمان ہوا اور بڑا اچھا مسلمان ہوا۔

پھر کفار نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کیلئے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا ۔ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہو کر لشکر کا چکر لگایا ۔ پھر واپس جا کر بولا :کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں ۔ لیکن ذرا ٹھہرو میں دیکھ لوں ان کی کوئی کمین گاہ یا کمک تو نہیں ؟ اس کے بعد وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہوا دور تک نکل گیا ۔لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر کہا: میں نے کچھ پایا تو نہیں لیکن اے قریش کے لوگو! میں نے بلائیں دیکھی ہیں جو موت کو لادے ہوئے ہیں ۔ یثرب کے اونٹ اپنے اوپر خالص موت سوارکیے ہوئے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی ساری حفاظت اور ملجا و ماویٰ خو د ان کی تلواریں ہیں ۔ کوئی اور چیز نہیں ۔ خداکی قسم میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کوئی آدمی تمہارے آدمی کو قتل کیے بغیر نہ رہے گا اور اگر تمہارے خاص خاص افراد کو انہوں نے مار لیا تو اس کے بعد جینے کا مزہ ہی کیا ہے ۔ اس لیے ذرا اچھی طرح سوچ لو۔

ابوجہل کا دوبارہ اصرار اس موقعہ پر ابوجہل کے خلاف جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا، ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑاہوا۔ جس میں مطالبہ کیاگیا کہ جنگ کیے بغیر مکے واپس جائیں ۔حکیم بن حزام نے عُتبہ بن ربیعہ کو بھی واپسی پر آمادہ کرلیا۔ پھر عتبہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور کہا کہ اے قریش کے لوگو! تم محمد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی کرکے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دو گے ۔اگر تم نے انہیں مار بھی لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دیکھنے کو ملیں گے جنہیں دیکھ کر تمہیں کوئی خوشی نہ ملے گی۔کیونکہ تم نے اپنے ہی کسی چچیرے بھائی کو ، کسی خالہ زاد کو، یا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہوگا۔ اس لیے واپس چلو۔

لوگ عتبہ کی اس تقریر سے بہت متاثر ہوگئے ۔اس کے بعد عتبہ نے حکیم سے کہا تم ابو جہل کے پاس جاؤ اور اسے میری تجویز پر قائل کرو ۔لیکن ابوجہل یہ تجویز سن کر بھڑک اٹھا اور عتبہ کیلئے طعن آمیز گفتگو کرنے لگا ۔ابوجہل نے جب بازی پٹتے دیکھی تو اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے ۔ فوراً عامر بن حضرمی کو بلایا اور اسے اس کے بھائی عمرو بن حضرمی کے قتل کی یاد دلائی جو وہ سریہ عبداللہ بن جحش میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔اور کہا کہ دیکھو تمہارا حلیف عتبہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس مکہ لے جائے ۔ کیونکہ اس کا ایک بیٹا مسلمان ہو کر اسلامی فوج میں شامل ہے ۔ لہذا اس سے پہلے کہ عتبہ جنگ سے کنی کتراجائے اور لوگوں کو مکہ واپسی پر آمادہ کردے ۔ تم اپنے مقتول بھائی کے قتل کی دہائی دو۔ اس پر عامر نے کپڑے پھاڑ کر عمرو کی دہائی دی ۔ اس پر لوگ گرم ہوگئے اور عتبہ و حکیم کی چلائی ہوئی مہم ناکام ہوگئی۔ یوں اللہ کا وعدہ پورا ہوگیا اور کفرکو رہتی دنیا تک ذلیل و خوار کرنے کے اسباب مہیا ہوگئے۔

دونوں لشکر آمنے سامنے اس کے بعد کفار کے لشکر نے پیشقدمی شروع کردی ۔ اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگیں ۔ کفار کا جاہ وحشم اور فخر و غرور دیکھ کر نبی کریمۖ نے دعا کی کہ :اے اللہ ! یہ قریش ہیں جو پورے تکبرو تبختر کے ساتھ تیری مخالفت کرتے اور تیرے نبی کو جھٹلاتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔
اے اللہ : تیری مدد… جس کا تونے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ : آج ان کے چہرے آلودہ فرمادے ۔ لشکر کو احکام کی تابعداری کی تلقین صفوں کی درستگی کے بعد آنحضور ۖنے لشکر والوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تک آپ کے آخری احکام موصول نہ ہوجائیں ، جنگ شروع نہ کی جائے۔ اورجب کفار تمہارے قریب آجائیں تب ان پر تیر چلانا۔ اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا۔اور جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں تلوار نہ کھینچنا (ابوداؤد) اس ہدایت کاایک مقصد تو اسلحہ بچانا تھا اور دوسرا لشکریوں کو تازہ دم رکھناتھا۔ تاکہ کفار جب ہانپ جائیں گے تو مسلمانوں کے تازہ دم لشکر کو اُن پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔

اس کے بعد رسول اللہ ۖ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت سعد بن معاذ کو ساتھ لے کر اپنے عریش میں تشریف لے گئے ۔اور حضرت ابوبکر برہنہ شمشیر لے کر حفاظت پر کمر بستہ ہوگئے ۔ یہ ایسا معرکہ خیز وقت تھا کہ حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو اشجع الناس ‘سب سے بڑھ کر بہادر’ کا لقب دیا ۔رسول اللہ ۖ کی پاسبانی ان حالات میں کوئی معمول حوصلہ کا آدمی سر انجام نہیں دے سکتاتھا۔ اور یہ تو قسمت کی بات ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی بعد از خد ہستی کی پاسبانی کی سعادت حضرت صدیق ہی کے حصے میں آئی مثلاً ہجرت کے وقت بھی ۔اس جانثاری کا حق تعالیٰ نے صلہ یہ دیا کہ غار کے ساتھی کو مزار کا ساتھی بنا دیا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست عرب کا طریق جنگ اہل عرب کا عام قاعدہ تھا کہ فوجوں کی عام لڑائی سے پہلے بڑے بڑے جغادری ایک دوسرے کے مقابلے میں دعوت مبارزت دیتے ۔ اور جب مقابلہ جاری ہوتا تو عام فوجی مداخلت نہیں کیا کرتے تھے ۔ اور بالعموم اسی مبارزت کے نتیجے میں جنگ جیتی یا ہاری جاتی تھی ۔ چنانچہ میدان بدر میںسب سے پہلے کافروں میں سے اسود بن عبدالاسد مخزومی کام آیا ۔ یہ شخص بڑا بد خلق اور اڑیل تھا ۔ للکارتا ہوا میدان میں نکلا کہ واللہ میں مسلمانوں کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا ۔اس کو روکنے کیلئے حضرت حمزہ آگے بڑھے ۔ دونوں کی پانی کے حوض پر مڈ بھیڑ ہوئی ۔حمزہ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اُڑ گیا ۔ اور وہ پیٹھ کے بَل گرا ۔ لیکن باز نہیں آیا ۔ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہی ہوا چاہتا تھا تاکہ اپنی قسم پوری کرلے ، اتنے میں حضرت حمزہ نے دوسری بھرپور ضرب لگائی اور اسے ڈھیر کردیا۔ یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا۔

Hazrat Hamza RA

Hazrat Hamza RA

اس کے بعد لشکر کفار سے ربیعہ کے دونوں بیٹے عُتبہ ، شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید تینوں شاہسواروں نے مبارزت کااعلان کیا۔ ان کے مقابلہ کیلئے انصار کے تین جوان عوف بن حارث اور معوذ بن حارث … یہ دونوں بھائی تھے۔ اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا اور تیسرے عبداللہ بن رواحہ نکلے۔ لیکن کفار نے کہا ہم اپنے چچیرے بھائیوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔ تب آنحضورۖ کے حکم سے حضرت عبیدہ بن حارث ، حضرت حمزہ اور حضرت علی نکلے ۔حضرت علی نے اپنے مد مقابل ولید بن عتبہ اور حضرت حمزہ نے اپنے مد مقابل شیبہ بن ربیعہ کا ایک ہی ہلے میں کام تمام کردیا ۔ حضرت عبیدہ اور عتبہ بن ربیعہ کا مقابلہ جاری تھا۔ حضرت ابو عبیدہ زخمی ہوچکے تھے ۔اتنے میں حضرت حمزہ اور حضرت علی آن پہنچے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر عتبہ کو جہنم رسید کردیا اور ابو عبیدہ کو اٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے ۔ان کا علاج معالجہ کیاجاتارہا لیکن چوتھے یا پانچویں دن بدر سے واپسی پر وادی صفراء پہنچ کر یہ شہادت پاگئے۔

اس مبارزت کاانجام مکی لشکر کے حق میں بہت برا ثابت ہواکہ وہ آغاز جنگ ہی میں اپنے چار کمانڈروں اور شہہ زوروں سے محروم ہوگئے ۔تب انہوں نے بے قابو ہو کر عام حملے کا اعلان کردیا۔مسلمانوں نے آنحضورۖ کی بنائی ہوئی جنگی پالیسی کے مطابق صرف دفاعی پوزیشن ہی اختیار کیے رکھی ۔مشرکین بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے تھے لیکن مسلمان ابھی تک کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھارہے تھے ۔ اس کے باوجود مشرکین کانقصان کافی زیادہ ہورہاتھا۔
آنحضورۖ کی دعااورابوبکر کی بیقراری جب لڑائی شروع ہوگئی تو رسول اللہ ۖ نے اپنے پاک پروردگار سے نصرت و مدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگناشروع کردی ۔ اے اللہ تونے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے اسے پورا فرمادے۔

اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں ۔ اللھم انجز ما وعدتنی…اللھم انشدک عھدک ووعدک پھر جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی ۔ نہایت زور کا رن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپ نے یہ دعا فرمائی :اے اللہ اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ اے اللہ! اگر تو چاہے کہ آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے ۔ اللھم ان تھلک ھٰذہ العصابةُ الیوم لاتعبد فی الارض بعد الیوم ابداً ۔آپ نے اس قدر تضرع کے ساتھ دعاجاری رکھی یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی ۔ حضرت ابوبکر نے چادردرست کی اور عرض کی ۔ اے اللہ کے رسول! بس فرمائیے ۔ آپ نے اس قدر عاجزی سے دعا کی ہے ۔ یہ ہرگز رائیگاں نہیں جائے گی ۔ اتنے میں حق تعالیٰ کی طرف سے وحی کا نزول شروع ہوا کہ: ” میں تمہاری مدد پے درپے اترنے والے ہزار فرشتوں سے کررہا ہوں”اور حق تعالیٰ نے فرشتوں کو وحی کی کہ: میں تمہارے ساتھ ہوں۔

تم اہل ایمان کے قدم جماؤ میں کافروں کے دل میں ان کا رعب ڈال دوں گا(٤:١٢)اس لیے ان کافروں کی خوب گردنیں مارو اور ان کی انگلیوں کے پوروں پر ضربیں لگاؤ : اسی دوران میں آنحضورۖ کو ایک جھپکی آئی ۔ آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا: ابوبکر خوش ہوجاؤ ۔ تمہارے پاس اللہ کی مدد آچکی ہے ۔ یہ جبریل ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں۔ اور گردو غبار میں اٹے ہوئے ہیں ابشر یا ابا بکر اتاک نصر اللہ ھٰذا جبریل اٰخذ بعنان فرسہ یقودہ علیٰ ثنایاہ الغبار(مسلم)
اس ارشاد میں کتنا اعزاز و اکرام تھا سیدنا صدیق اکبر کیلئے، کہ انہی کے نام آسمان سے پیغام آگیا۔

جنگ کی ترغیب اور بھرپور حملے کا حکم اس کے بعد رسول اقدسۖ چھپر سے باہر تشریف لائے ۔ آپ نے زرہ پہن رکھی تھی ۔ آپ پُر جوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جارہے تھے سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبَرَ( القمر٥٤:٤٥)اس کے بعد آپ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا: شاھت الوجوہ ۔ چہرے بگڑ جائیں ! اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں، نتھنے ،اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی میں سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو۔ اس کی بابت حق تعالیٰ نے فرمایاوَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰٰکِنَّ اللّٰہَ رَمَیٰ (الانفال)جب آپ نے پھینکا تو درحقیقت آپ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔

اس کے بعد رسول اللہ ۖ نے بھرپور حملے کاحکم دیا فرمایا شدواچڑھ دوڑو ، اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، جو کوئی ڈٹ کر لڑے گا، ثواب سمجھ کر ،آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گااور مارا جائے گا۔ اللہ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا۔ آپ نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا:
ٰ وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ واَلْاَرْضُ”اپنے رب کی اس جنت کی طرف بڑھو جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہیں” ۔ جس پر صحابہ کرام جوش و جذبے کے ساتھ کفار پرجھپٹ پڑے ۔ بحکم الٰہی فرشتوں کا نزول جب آنحضور نے بنفس نفیس زرہ پہن کر جنگ میں شرکت کی اور مسلمانوں کو قتال پر ابھارا اور پورے یقین و صراحت کے ساتھ فرمارہے تھے سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبَرَ( القمر٥٤:٤٥)کہ عنقریب یہ جتھہ شکست کھاجائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا۔تو اس سے مسلمانوں کے حوصلے بہت بلند ہوگئے اور اللہ کے فرشتوں نے بھی ان کی مدد کی۔

چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ اس دن ایک آدمی کاسر کٹ کر گرتا اور پتا نہ چلتا کہ کس نے کاٹا ہے ۔ اور آدمی کا ہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ کس نے کاٹا ہے ۔ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کررہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر ایک کوڑے کی مار پڑنے کی آواز آئی ۔ اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ جیزوم ! آگے بڑھ ۔مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چت گرا ، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا ۔ چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہ ۖ کو یہ ماجرا بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی ( مسلم) مشرکین کی دعا اور قبولیت دوسری طرف ابوجہل بھی دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو توڑنے والا ہے ، غلط راستہ اپنانے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔

اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے ، اس کی مدد فرما ”آج بدر کے دن اس کی دعا قبول ہوئی اور حق تعالیٰ نے اپنے پسندیددہ بندوں کو فتح عطا فرما دی ۔ اسی بات کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ فرمایا گیا : ” اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو تمہارے پاس فیصلہ آچکا ۔ اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ لیکن اگر تم پہلے جیسی حرکت پر پلٹو گے و ہم بھی تمہاری سزا کی طرف پلٹیں گے ۔ اور تمہارا جتھہ کچھ فائدہ نہ دے سکا اگرچہ تم زیادہ ہی ہو (انفال :١٦)کفار و معاندین کی کمر ہمت ٹوٹ گئی مشرکین کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی ۔ ان کے عتبہ و شیبہ جیسے بڑے سردار مارے جاچکے تھے ۔ کچھ گرفتار ہوچکے تھے ۔ابلیس جو ان کا پشتیبان بنا ہوا تھا، میدان چھوڑ کر بھاگ چکا تھا ۔ان کی صفیں مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں۔

ان کا لشکر بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹنے لگا ۔ صرف ابوجہل تھا جو انہیں لڑا رہا تھا ۔ ادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا ۔ انہیں حوصلہ دلا رہا تھا کہ مسلمانوں کو قتل نہ کرو ۔ انہیں گرفتار کرو تاکہ انہیں خوب سزائیں دی جائیں ۔ سراقہ کے بھاگ جانے کا کوئی اثر نہ لو ۔ وہ محمدۖ سے ملا ہوا تھا ۔ عتبہ و شیبہ کے قتل پر دل خراب نہ کرو ۔ انہوں نے خود جلد بازی کی ۔ اے گروہ قریش !جم کر لڑو اور اپنے باپ دادا کی روایات بھر پور جاری رکھو۔اس طرح ابوجہل اپنی دانست میں اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا چاہتا تھا۔

ابوجہل کا ننھے ابابیلوں کے ہاتھوں قتل ابو جہل نے اپنے گرد نیزہ برداروں کا ایک جتھا جمع کررکھا تھا۔ اتنے میں دو انصاری نوجوان اس کی طرف موت کا فرشتہ بن کر لپکے ۔یہ بالکل نو عمر تھے ۔ ایک کانام معاذ بن عمرو بن جموح تھا اور دوسرے کا معوذ بن عفراء …یہ دونوں حضرت عبدالرحمن بن عوف کے دائیں بائیں کھڑے انہیں سے ابوجہل کاپوچھ رہے تھے ۔ کیونکہ اسے پہچانتے نہ تھے ۔ انہوں نے پوچھا کہ تم نے ابوجہل کو کیا کہنا ہے۔ دونوں بچے بولے !چچا جان سنا ہے کہ وہ رسول کریم ۖ کو گالیاں دیتا ہے ۔ آج ہم اس سے بدلہ لے کر رہیں گے ۔حضرت عبدالرحمن نے اشارے سے بتایا کہ دیکھو وہ جو لوگوں کو باربار بلا رہا ہے، یہی ابوجہل ہے۔انہوں نے دیکھاا س کے ارد گرد ایک دستہ حفاظت پر مامور ہے ۔اسی دم اسلامی فوج کا ایک ریلا آیا تو ابوجہل تن تنہا رہ گیا۔

اپنے گھوڑے پر سوار ادھر ادھر بھاگنے لگا ۔ ان دونوں بچوں نے جھپٹ کر اسے نشانے پہ رکھ لیا ۔ ابوجہل پہلے تو یہی سمجھا کہ بچے مذاق کررہے ہیں ۔لیکن جب ایک نے اس کے پاؤں پر تلوار کی بھرپور ضرب لگائی کہ اس کی آدھی ٹانگ کٹ گئی ۔ دوسری طرف معوذ بن عفراء نے اس پر بھرپور وار کرنا شروع کردیے ۔وہ بتاتے ہیں کہ اتنے میں مجھے ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے گھیر لیا ۔ اس نے میرے کاندھے پر تلوار ماری کہ پورا بازو لٹک گیا ۔ لیکن معوذ کے حملے سے ابوجہل گھائل ہوچکا تھا اور گرپڑا۔ اور ہم دونوں اپنا اپنا بچاؤ بھی کرتے جاتے تھے ۔ اور ابوجہل کا سامان بھی اس کے جسم سے اتارتے جاتے تھے۔

(صحیح بخاری میں ان دونوں کا نام معاذ بن عمرو اور معاذ بن عفراء آیاہے ۔موخر الذکر اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے ۔ اور معاذ بن عمرو حضرت عثمان کے زمانہ خلافت تک زندہ رہے )ان دونوں نے رسول اقدس ۖ کے سامنے پہنچ کر آپ کو بتایا کہ ہم نے ابو جہل کو قتل کردیا ہے ۔آنحضورۖ نے دونوں کی تلواریں خون آلود دیکھیں اور شاباش دی ۔کہ تم نے اس امت کے فرعون کو تہہ تیغ کیا ہے ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا: کون ہے جو ابوجہل کاپتہ کرکے آئے؟ یہ سنتے ہی صحابہ کرام اسے ڈھونڈنے لگے ۔ عبداللہ بن مسعود نے اسے پہچان لیا ۔ وہ شدید زخمی تھا۔جسم میں کوئی جان باقی نہ تھی ۔ البتہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ جب حضرت عبداللہ نے اس کا سر اتارنے کیلئے اس کی داڑھی پکڑی اور کہا :او اللہ کے دشمن! آخرکار ذلیل و رسوا ہوا نا۔ وہ بولا میں کیوں رسوا ہوا؟۔

واللہ جس شخص کو تم نے قتل کیا ہے اس جیسا بہادر اور کوئی دیکھا بھی ہے تم نے ؟ مجھے یہ حسرت ضرورہے کہ یثرب کے کسانوں کے ہاتھوں قتل کیاجارہا ہوں ۔کہنے لگا: بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی ؟ حضرت عبداللہ نے کہا: اللہ و رسول کی ۔ اتنے میں آپ اس کی گردن پر پاؤں رکھ چکے تھے ۔ کہنے لگا او بکریوں کے چرواہے تو بڑی اونچی جگہ چڑھ گیا ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ابوجہل کا سر کاٹ لیا ۔ اور اسے لے کر آنحضور ۖ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ رہا اللہ کے دشمن کا سر۔
اور آنحضور ۖنے بڑی حیرت سے فرمایا: کیا واقعی یہ ابو جہل کا سر ہے ۔لا الٰہ الا اللہ ۔ اس کے بعد فرمایا: اللہ اکبر الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ۔

تمام تعریفوں کے لائق وہی ذات ہے ، جس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی ”پھر فرمایا :مجھے اس کی لاش دکھاؤ ۔ جب آپ نے اس کی لاش دیکھی تو فرمایا : یہ اس امت کے فرعون کی لاش ہے !!! وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْٔمُوْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ عزت تو صرف اللہ و رسول اورمومنوں کی ہے ۔اورکفارکیلئے دونوں جہان کی ذلت و رسوائی! جنگ بدرمیں ایمان کے تابناک نقوش اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی ۔ اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی ۔ اصولوں کے اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں ۔اور مظلوم و مقہور نے ظالم و قاہر سے ٹکرا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی ۔سیرت ابن اسحق میں ہے کہ جب زور کا رن پڑا تو رسول پاک ۖ نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگ زبردستی میدان جنگ میں لائے گئے ہیں ۔ انہیں ہماری جنگ سے کوئی سروکار نہیں۔

لہذا بنو ہاشم کاکوئی آدمی کسی کی زد میں آجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے ۔ اور ابوالبختری بن ہشام بھی کسی کی زد میں آجائے تو وہ اسے بھی قتل نہ کرے ۔ اور عباس بن عبدالمطلب کسی کی زد میں آجائیں تو وہ بھی انہیں قتل نہ کرے ۔کیونکہ وہ بالجبر لائے گئے ہیں ۔کیونکہ ابوالبختری مکے میں سب سے زیادہ آنحضور ۖ کی ایذا رسانی سے اپنا ہاتھ روکے ہوئے تھا ۔ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاتا تھا اور نہ اس کی طرف سے کوئی ناگوار بات سننے میں آئی تھی ۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھاجنہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے بائیکاٹ کاصحیفہ چاک کیا تھا ۔اس سے رسول اللہ ۖ کی احسان شناسی ظاہر ہوتی ہے۔ اس معرکے میں مشہور مکی سردار امیہ بن خلف اپنے بیٹے سمیت قتل ہوگیا۔جنہیں حضرت عبدالرحمن بن عوف نے قیدی بنالیاتھا لیکن حضرت بلال نے ان دونوں کو دیکھ کر نہایت بلند آواز میں پکارا اے انصاریو : اللہ کا دشمن یہاں ہے ۔ لوگ بلال کی آواز سن کر لپکے اور ان دونوں کا کاٹ ڈالا۔

حضرت عکاشہ کی تلوار اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کی تلوار ٹوٹ گئی ۔ وہ رسول اللہ کے پاس آئے ۔ آپ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھما دیا اور فرمایا: عکاشہ ! اسی سے لڑائی لڑو ۔ عکاشہ نے اسے رسول اللہ ۖسے لے کر ہلایا تو وہ ایک لمبی مضبوط اور چم چم کرتی ہوئی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا ۔ پھر انہوں نے اس سے لڑائی لڑی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب کردی ۔ اس تلوار کانام عون (مدد) رکھاگیاتھا۔ْیہ تلوار مستقلاً حضرت عکاشہ کے پاس رہی ۔ یہاں تک کہ دورخلافت صدیق میں مرتدین کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ اس وقت بھی یہ تلوار ان کے پاس تھی۔

صرف اسلام کارشتہ حضرت مصعب بن عمیر اپنے سگے بھائی ابو عزیر بن عمیر عبدی کے پاس سے گزرے ۔ اس وقت ایک انصاری صحابی انہیں باندھ رہے تھے ۔ابو عزیر نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی ۔ حضرت مصعب نے اس انصاری سے کہا ۔ یااخی !اس کے ذریعے سے اپنے ہاتھ مضبوط کرنا۔ اس کی ماں بڑی مالدار ہے ۔ وہ تمہیں مالا مال کردے گی ۔ اس پر ابو عزیر نے اپنے بھائی مصعب سے کہا !کیا میرے بارے میں ، اپنے بھائی کے بارے میں تمہاری یہی وصیت ہے ؟ حضرت مصعب نے کہا ہاں!تمہاری بجائے یہ میرا بھائی ہے کیونکہ مومن ہے۔

حضرت سعد بن معاذ کی ناگوار ٭ جس وقت مسلمانوں نے مشرکین کی گرفتاری شروع کی ۔ رسول پاک ۖ چھپر میں تشریف فرما تھے اور حضرت سعد بن معاذ تلوار حمائل کیے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ رسول اللہ ۖ نے دیکھا کہ حضرت سعد کے چہرے پر ناگوار تاثرات ہیں ۔ آپ نے فرمایا: اے سعد ! ایسے محسوس ہوتاہے کہ تمہیں مسلمانوں کا یہ کام ناگوار محسوس ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا: جی ہاں ! واللہ یہ اہل شرک کے ساتھ پہلا معرکہ ہے ، جس کا موقع اللہ نے ہمیں عطا فرمایاہے ۔ اس لیے اہل شرک کو باقی چھوڑ نے کی بجائے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے اور اچھی طرح انہیں کچل دیاجائے۔

حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ کاافسوس جب مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیاگیا اور عتبہ بن ربیعہ کو کنویں کی طرف گھسیٹ کر لیجایا جارہا تھا ۔ تو رسول اقدس ۖ نے دیکھا کہ اس کے صاحبزادے ابوحذیفہ غمزددہ ہیں ۔ آپ نے فرمایا :ابوحذیفہ ! غالباً اپنے والد کے سلسلے میں تمہارے دل کے اندر کچھ احساسات ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ اللہ کے رسول ایسا نہیں ہے ۔میرے اندر اپنے باپ کے قتل کے بارے میں کوئی لرزش نہیں ہے۔ البتہ میں اپنے باپ کے متعلق جانتا تھا کہ اس میں سوجھ بوجھ ہے۔ دور اندیشی اور فضل و کمال ہے ۔ اس لیے میں آس لگائے بیٹھا تھا کہ یہ خوبیاں اسے اسلام تک پہنچا دیں گی لیکن اب ان کا انجام دیکھ کر اور اپنی توقع کے خلاف کفر پر اس کا خاتمہ دیکھ کر مجھے افسوس ہورہا ہے۔ اس پر آنحضور ۖنے حضرت ابو حذیفہ کے ایمان کی تحسین کی اور ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

مسلمانوں کے شہداء کا مدفن اس معرکہ حق و باطل میں صرف چودہ مسلمان شہید ہوئے ۔ چھ مہاجرین اور آٹھ انصاری ۔اور یہ چودہ شہیدایک ہی جگہ پر دفن ہیں ۔ وہ چند فٹ کاایک احاطہ ہے ۔ جس کے اوپر کوئی چھتری نہیں ، کوئی گنبد نہیں ، کوئی اونچی قبر نظر نہیں آرہی ۔ 1982 میں مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم جب اس احاطے کے سامنے کھڑا ہوکر دعا کررہاتھا تو میرے آنسو تھمتے نہ تھے ۔ کہ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکرہے تو نے وہ جگہ دکھائی جہاں جنتی روحیں محو استراحت ہیں ۔ زمین کا یہ ٹکڑا ان مقامات میں سے ہے جن پر زمین فخر کرتی ہے ۔ جو رب العرش کے بعد سب سے محبوب قطعے ہیں ۔ یہاں وہ نفوس قدسیہ آرام فرما رہے ہیں کہ ان کی پاکبازی ، ان کی رفعت شان ، ان کی بلند منزلی پرفرشتے بھی رشک کناں ہیں ۔ یہ وہ بلند مرتبہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے رحمت اللعالمین ۖکی زیارت نصیب کی۔ اور جنہوں نے اپنے آخری لمحات میں اپنی جانیں حضور پر …حضور کے سامنے قربان کردیں۔ ان میں سے وہ بہادر لوگ بھی ہیں۔

جنہوں نے اللہ کے دشمنوں کو تہہ تیغ کیا تھا ۔جن کی عظمت کسی پیمانے سے تولی اور ماپی نہیں جاسکتی ۔اور یہ سب ایک چھوٹے سے احاطے میں دفن ہیں جبکہ ہمارے وطن میں قبرپرستی کاعالم یہ ہے کہ نمعلوم قسم کے لوگوں کی قبروں پر بڑے بڑے مزار بنے ہوئے اور لوگوں ان بلند گنبدوں کو ان کی روحانی عظمت کی دلیل قرار دیتے ہیں تو ان صحابہ کرام کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ؟ مشرکین کے مردار اور آنحضورۖ کا خطاب بدر میں مشرکین کے مقتولین کی تعداد ستر تھی ۔ اور ستر ہی قید ی بنائے گئے ۔ان کے مقتولین و ماسورین کوئی معمولی لوگ نہ تھے ۔بڑے جنگجو، قائدین ، سپہ سالار ، سردار اور سربرآوردہ لوگ تھے۔ ان مقتولین کو ایک جگہ اکٹھا کردیا گیا تو آنحضور نے ان سے خطاب فرمایا: کہ تم لوگ ہمارے لیے اجنبی نہ تھے۔ تم اپنے نبی کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ پہچانتے تھے، تم اپنے نبی کے رشتہ دار بھی تھے۔

لیکن تم کتنے برے رشتہ دار ثابت ہوئے ۔ تم نے نبی کو جھٹلایا جبکہ باہر کے لوگوں نے اس کی تصدیق کی ۔تم نے مجھے پناہ دینے سے انکار کردیا ۔ جبکہ اوروں نے میرے لیے دیدہ و دل فراش راہ کیے ۔ تم نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی ۔ لیکن اللہ نے اپنی نبی کو سرفراز فرمایا اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کردیا ۔اگر تم نے اللہ و رسول کی اطاعت کی ہوتی۔تو آج تمہارا یہ عبرتناک انجام نہ ہوتا۔ حضرت عمر نبی کریم ۖ کے پاس کھڑے سن رہے تھے ۔ عرض کی اے اللہ کے رسول !آپ ان جسموں سے باتیں کررہے ہیں ، جن کے اندر روح ہی نہیں۔

نبی کریم ۖ نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سُن رہے ہو۔ لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے (بخاری) منحوس گڑھے کی نشاندھی میں نے بدر کے بدوؤں سے اس جگہ کی نشاندھی چاہی جہاں مشرکین کے مرداروں کو پھینکا گیا تھا انہوں نے ایک جگہ کی نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ حتمی طور پر تو ہم نہیں بتلا سکتے ۔ البتہ یہ چند میٹر جگہ ایسی ہے جہاں کبھی کوئی سبزہ نہیں اُگا۔ مشرکین کے ناپاک وجود کی نحوست اب تک موجود ہے۔

۔ فاعتبرو یآولی الابصار۔ مدینے میں فتح کی خوشخبری فتح کی خوشخبری مدینے پہنچانے کیلئے نبی ۖ نے دو قاصد روانہ فرمائے ۔ بالائی مدینہ کیلئے حضرت عبداللہ بن رواحہ اور زیریں مدینہ کیلئے حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا ۔اس دوران میں یہود اور منافقین نے جھوٹے پروپیگنڈے کرکے مدینے میں ہلچل برپا کررکھی تھی ۔یہاں تک کہ آنحضور ۖ کے قتل کی خبر بھی اڑائی ہوئی تھی ۔چنانچہ جب ایک منافق نے حضرت زید بن حارثہ کو نبی اقدس ۖکی اونٹنی قصواء پر سوار آتے دیکھا تو بول پڑا: واقعی محمد قتل کردیے گئے ہیں ۔دیکھو ! یہ تو انہی کی اونٹنی ہے ۔ ہم اسے پہچانتے ہیں۔ اور یہ زید بن حارثہ ہے جو شکست کھا کر بھاگا ہے ۔ اور اس قدر مرعوب ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے۔

بہرحال جب دونوں قاصد پہنچے تومسلمانوں نے انہیں گھیر لیااور ان سے تفصیلات سننے لگے۔ حتی کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتح یاب ہوئے ہیں ۔ یہودیوں اور منافقوں کو مسلمانوں کی فتح اور مشرکین کی شکست و بربادی کی خبر بڑی بری لگی۔ بنو نبھان قبیلے کا رئیس کعب بن اشرف یہودی بولا : کیا واقعی ایسا ہوگیا ہے؟ یہ لوگ تو عرب کے اشراف اور بادشاہ تھے اگر محمد نے ان کو مار لیا ہے تو رُوئے زمین کا شکم اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔اس کے برعکس مسلمانوں میں اس خبر کے بعد ہر طرف مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے درو بام تہلیل و تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے اور جو سربرآوردہ مسلمان مدینے رہ گئے تھے وہ فتح کی مبارکباد دینے کیلئے مدینے سے بدر کی طرف نکل پڑے۔

بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی ۔ آپ نے انہیں صحابہ کرام پر تقسیم فرما دیااور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی ۔اس وصیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ خود کھجور کھاتے لیکن قیدیوں کو روٹی کھلاتے تھے۔ جب رسول اللہ ۖ مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ کرام سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا ۔ حضرت ابوبکر نے کہا ۔ اللہ کے نبی : یہ لوگ ہمارے ہی چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں ۔ میری رائے ہے کہ ان سے عام جنگی اصول کے تحت فدیہ لے لیں ۔ اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفار کے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت عطا فرمادے ۔اور وہ ہمارے دست و بازو بن جائیں۔

حضرت عمر فاروق سے پوچھا تو ان کی رائے بالکل مختلف تھی۔ آپ کہنے لگے کہ حضور !میرارشتہ دار مجھے عنایت فرمادیں ۔ ابوبکر کو اس کا رشتے دار اور علی کو عقیل بن ابی طالب اور فلاں جو حمزہ کا رشتہ دار ہے۔ اسے حمزہ کے حوالے کیا جائے اور ان سب کی گردنیں ماری جائیں ۔ تاکہ حق تعالیٰ جان لے کہ ہم اس کے باغیوں کے بارے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے ۔اور یہ حضرات مشرکین کے لیڈر ہیں ۔ان کا قلع قمع ہونا بہت ضروری ہے ۔
لیکن نبی اقدس ۖنے حضرت ابوبکر کی رائے پسند فرمائی ۔
حضرت عمر کابیان ہے کہ اگلی صبح میں حضور اقدس ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آنحضور ۖ خود بھی رو رہے تھے اور ساتھ ابوبکر بھی ۔ میں نے سبب دریافت کیا ، تو آپ ۖنے فرمایا فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے ۔ اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔

آپ نے قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا اور یہ وحی نازل ہوئی ہے ۔( مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہ اَسْرٰی… الخ ) نبی کیلئے زیبانہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ دشمنوں کو اچھی طرح نہ کچل دے تم تو دنیا کے فائدے چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے (انفال : ٦٧)اور اللہ کی طرف سے جو نوشتہ سبقت کرچکا تھا وہ یہ تھا ” پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو ان کی گردنیں خوب مارو ۔ یہاں تک کہ جب ان کا خون بہاچکو تو بچے کھچے کافروں کو قیدی بناؤ اور اچھی طرح انہیں قابو کرو، پھر خواہ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دو یا معاوضہ لے کر رہا کردو ، تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔

(محمد: ٤)یعنی مشرکین کو جنگ میں قید کرنے کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔ چونکہ اس نوشتے میں قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کو قبول فدیہ پر صرف سرزنش کی گئی ہے اور یہ بھی اس لیے کہ انہوں نے کفار کو اچھی طرح کچلنے سے پہلے قیدی بنالیا تھا ۔ اور اس لیے بھی کہ انہوں نے ایسے ایسے مجرمین جنگ سے فدیہ لیناقبول کرلیاتھا جو صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جنگ کے بھڑکانے کے مجرم تھے ۔ ان جیسے مجرموں پر مقدمہ چلایا جاتا ہے جس کا فیصلہ سزائے موت یا عمر قید ہوتاہے۔

بہرحال چونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا ۔اس لیے قیدیوں سے فدیہ طلب کیا گیا ۔فدیہ کی مقدار ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تھی ۔ اہل مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے ، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہو ۔ وہ مدینے کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ جب یہ بچے اچھی سیکھ جائیں گے تو یہی اس فدیہ ہوگا ۔رسول اللہ ۖ نے کئی قیدیوں کو پر احسان فرمایا اور انہیں بغیر فدیہ لیے بغیر رہا کردیا ۔اس فہرست میں مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور جاہلی شاعر ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں ۔ابوعزہ جنگ احد میں بھی شریک ہوا تھا لیکن قید ہوگیا پھر قتل کردیا گیا ۔
نبی اقدس ۖ نے اپنے داماد ابوالعاص کو بھی اس شرط پر بلا فدیہ چھوڑ دیا گیا کہ وہ حضرت زینب کی راہ نہ روکیں گے ۔ چنانچہ ابوالعاص نے مکے پہنچتے ہی اپنی بیوی اور آنحضور اقدس ۖ کی لخت جگر کو مدینے بھیج دیا تھا۔

حضور ۖ کے عفو و درگزر کی مثال قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زور آور خطیب تھا ۔ حضرت عمر کا مشورہ تھا کہ اس کے اگلے دو دانت توڑ دیے جائیں، اس کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کھڑا نہیں ہوسکے ۔ لیکن رحمة اللعالمین ۖنے یہ تجویز نہیں مانی کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے ۔جس سے خداوند تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ۔قیدیوں میں ابوسفیان کا بیٹا عمرو بھی تھا۔ اسے حضرت سعدبن نعمان کے بدلے رہا کردیا گیا کیونکہ وہ عمرے پر گئے تو ابو سفیان نے انہیں یرغمال بنا لیا تھا۔

خبر ہزیمت جب مکے خبر پہنچی ابو جہل سمیت ستر بندوں کے عبرتناک قتل اور ستر کے قیدی بنالیے جانے کے بعد تو مشرکین کی کمر بالکل ہی ٹوٹ گئی ۔ وہ سراسیمہ ہوکر غیر منظم طریقے سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ احساس شکست ، شرم و ندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ مکے یہ خبر لے کر کیسے جائیں ۔ سب سے پہلے جوشخص مکے پہنچا ۔ وہ بنو خزاعہ کا ایک شخص حیسمان بن عبداللہ تھا ۔ اس کے پہنچتے ہی لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے کہ خبر کیا ہے بتاؤ ۔یہ پہلے ہی حواس باختہ تھا ۔ اس نے چھوٹتے ہی بتانا شروع کردیا کہ ابولحکم بن ہشام مارا گیا ، امیہ بن خلف کٹ گیا، عتبہ و شیبہ اور ان کا باپ ربیعہ بھی قتل ہوگیا ۔ اس طرح وہ تسلسل کے ساتھ مقتولین کے نام لیتا جا رہا تھا ۔حطیم میں ایک شخص صفوان بن امیہ بیٹھا ہوا تھا اسے یہ آدمی پاگل لگا تو اس نے لوگوں سے کہا ۔ اگر یہ ہوش میں ہے تو اس سے میرے بارے میں پوچھو ۔ لوگوں نے پوچھا صفوان بن امیہ کاکیاہوا ۔ تو اس نے کہا وہ دیکھو وہ حطیم میں بیٹھا ہوا ہے اس طرح اس کے ہوش و حواس کی تصدیق ہوگئی۔

٭ مکے میں پہنچنے والی اس خبر کی تصدیق کے بعد مکے والوں میں چیخ چنگھاڑ شروع ہوگئی لیکن جو لوگ اپنا ایمان چھپائے بیٹھے تھے ۔ انہیں اس خبر سے بڑی خوشی ہوئی ۔ ان کے سینے تن گئے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ میں ان دنوں حضرت عباس کا غلام تھا۔ ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا۔ حضرت عباس مسلمان ہو چکے تھے ۔ام الفضل مسلمان ہو چکی تھیں ۔ میں بھی مسلمان ہوچکا تھا ۔البتہ حضرت عباس نے اپنا اسلام چھپایا ہوا تھا ۔ ادھر ابو لہب بزدلی کی وجہ سے معرکہ بدر میں شریک نہ ہوا تھا۔ جب اسے لشکر قریش کی ہزیمت کی خبر ملی تو اللہ نے اس پر ذلت و رُو سیاہی طاری کردی ۔اور ہمیں اپنے اندر قوت و عزت محسوس ہوئی ۔میں کمزور آدمی تھا۔ تیر بنایا کرتا تھااور زمزم کے حجرے میں بیٹھا تیر کے دستے چھیلتارہتاتھا ۔ میرے پاس ام الفضل بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اور جو خبر آئی تھی اس سے ہم تو شاداں و فرحاں تھے کہ ابولہب پاؤں گھسیٹتا ہوا آپہنچا ۔ اور حجرے کے کنارے پر بیٹھ گیا ۔ اتنے میں اچانک شور ہوا۔

یہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا ۔ ابو لہب نے اس سے کہا میرے پاس آؤ ۔ میری عمر کی قسم کوئی خبر لائے ہو ۔ وہ ابو لہب کے پاس بیٹھ گیا۔ ابولہب نے اس سے کہا بھتیجے بتاؤ کیاحال رہا ؟ اس نے کہا کچھ نہیں۔ بس لوگوں سے ہماری مڈھ بھیڑ ہوگئی اور ہم نے اپنے گردنیں ان کے حوالے کردیں ۔ وہ ہمیں جیسے چاہتے تھے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے تھے قید کرتے تھے۔ اور خدا کی قسم !میں اس کے باوجود لوگوں کو ملامت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت ہماری مڈبھیڑ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوئی تھی ۔ جو آسمان و زمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے ۔خداکی قسم نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مد مقابل ٹھہر پاتی تھی ۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے خیمے کا کنارہ اٹھایا پھر کہا واللہ! وہ فرشتے تھے ۔ یہ سن کر ابولہب نے میرے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا ۔ میں بھی اس کے گلے پڑگیا ۔ ہم دونوں گتھم گتھا ہوگئے اس نے مجھے زمین پر لٹادیا اور مارنے لگا ۔ لیکن اتنے میں ام الفضل نے اٹھ کر خیمے کا ایک کھمبا لیا اور اسے ایسی ضرب ماری کہ سر میں بری طرح چوٹ آگئی ۔اور بولیں اس کا مالک نہیں ہے اس لیے تو نے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے۔

ابولہب کھسیانا ہوکر اٹھا اور چلا گیا ۔ اس کے بعد وہ صرف سات راتیں گزار سکا کہ اسے طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ عدسہ کی گلٹی کو عرب میں بہت منحوس سمجھا جاتا تھا ۔ چنانچہ مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے بھی اسے یو نہی چھوڑ دیا اور وہ تین روز تک بے گور کفن پڑا رہا ۔ کوئی اس کے قریب نہیں جاتاتھا اور نہ اس کی تدفین کی کوشش کرتاتھا ۔ جب اس کے بیٹوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اس طرح چھوڑنے پر لوگ انہیں ملامت کریں گے تو ایک گڑھا کھود کر اس میں لکڑی سے اس کی لاش دھکیل دی اور دور ہی سے پتھر پھینک کر چھپا دی ۔ یہ ہوا انجام اس شخص کا جو رسول اقدس ۖ کا دشمن تھا ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہو گیا ۔” تباہ گیا ابو لہب ۔ اس کے مال اور کسب نے اسے کوئی نفع نہ دیا ۔وہ عنقریب شعلہ مارتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔

اور حق تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ” جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچائیں ۔ اللہ کی لعنت ہوئی ان پر دنیا و آخرت میں ۔ اور رسوا کن عذاب ان کا مقدر ٹھہرا ۔اً(الاحزاب ٥٨٥٧) مقتولین کے نوحہ پر پابندی مشرکین نے اپنی ذلت و رسوائی کو چھپانے کی خاطر مقتولین کانوحہ کرنے پر پابندی عائد کردی تاکہ مسلمان خوش نہ ہوں ۔ مگر دلی جذبات کو کون روک سکتا ہے ۔ ایک اندھا آدمی تھا ، اسود بن عبدالمطلب ، اس کے تین بیٹے مقتول ہوئے ۔ وہ ان پر رونا چاہتاتھا ۔ ایک دن وہ مکے کے باہر کسی وادی میں چلا گیا تاکہ تنہائی میں اپنے غم پر رو سکے ۔ اتنے میں اسے کسی نوحہ گرعورت کی آواز سنی ۔ اس نے اپنے غلام کو پتہ کرنے بھیجا تو اس نے بتایا کہ یہ عورت تو اپنے گمشدہ اونٹ پر رو رہی ہے۔

اسود یہ سن کر اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا ۔اور بے اختیار کہہ اٹھا اتبکی ان یضل لھا بعیر ویمنعھا من النوم سھورُ
کیا وہ ایک اونٹ کے گم ہوجانے پر روتی ہے ۔ اس پر بے خوابی نے اس کی نیند حرام کررکھی ہے۔ فلا تبکی علیٰ بکر ولٰکن
علیٰ بدر تقاصرت الجدود تو اونٹ پر نہ رو بلکہ بدر پر رو ، جہاں قسمتیں پھوٹ گئیں ۔ علیٰ بدر سراة بنی ھصیص و مخزوم و رھط ابی الولید ہاں ہاں بدر پر رو جہاں بنی ہصیص ، بنی مخزوم اور ابوولید کے قبیلے کے سربرآوردہ لوگ تھے۔

وابکی ان بکیت علیٰ عقیل وابکی حارثا اسد الاسواد اگر رونا ہی ہے تو عقیل پر رو۔ اور حارث پر رو جو شیروں کا شیر تھا۔ وابکیھم ولاتسمی جمیعا وما لابی حکیمة من ندید تو ان پر رو اور سب کا نام نہ لے۔ اور ابی حکیمہ کا تو کوئی ہمسر ہی نہ تھا۔ الا قد سا بعدھم رجال ولولا یوم بدر لم یسودوا دیکھو ان کے بعد ایسے ایسے لوگ سردار بن گئے کہ اگر بدر کادن نہ ہوتا تو وہ سردار نہ ہوسکتے تھے۔

شرکائے بدر کا اعزاز جتنے مسلمان بھی جنگ بدر میں شریک ہوئے ان سب سے اللہ راضی ہوا اور ان کے دلوں میں مہرو وفا کا نور مکمل طور پر بھر دیا ۔ ان سب کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اے اہل بدر آج کے بعد کوئی عمل تمہارے لیے جنت میں داخلے کی روکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ اہل بدر کی جانثاری ایسی تاریخی اور ناقابل فراموش قرار دے دی گئی کہ اہل اسلام میں اس گروہ کو ہمیشہ نمایاں حیثیت حاصل رہی ۔ ان کی ہر خطا قابل معافی سمجھی گئی ۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ سے ایک خطا ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق جلال میں آکر ان کے قتل کی اجازت مانگنے لگے ۔ حضور اقدس ۖ نے فرمایا : عمر تم نہیں جانتے کہ حاطب بدری صحابی ہے ۔ اور بدری آدمی منافق نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں ہمیشہ بدری صحابہ کو شوریٰ میں بھی اولیت دیے رکھی بلکہ ان کے وظائف بھی دوسرے لوگوں سے زیادہ مقرر فرمائے۔بدری ساتھیوں کی وفاداری آج بھی ضرب المثل بنی ہوئی ہے اور تاابد ان کا یہ اعزاز برقرار رہے گا۔

مسلمانوں میں حقیقی عیدکی خوشیاں قریشیوں کے قلع قمع اور اہل مدینہ کی عزت و حوصلہ افزائی کے ان لمحات میںعید الفطر آگئی ۔ اور حسن اتفاق سے اسی سال رمضان کے روزے اور صدقہ فطر فرض کیاگیا ۔ اور زکوٰة کا نصاب متعین فرمایا گیا ۔اس لحاظ سے اہل ایمان کی یہ عید بڑے خوشگوارر حالات میںوارد ہوئی ۔ کتنا ایمان افروز تھا عید کا منظر جب تمام مومن مردو عورت سمیت تکبیر وتہلیل بیان کرتے ہوئے عید گاہ کی طرف جارہے تھے ۔ ان کے دل اللہ کی کبریائی و عظمت سے آباد تھے ۔ آنکھوں میں امید کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اور ان کے سر رب کائنات کے حضور شکرو سپاس کیلئے جھکے ہوئے تھے ۔اور حق تعالیٰ نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ۔”اور یاد کرو! جب تم زمین میں قلیل تھے’ کمزور بنا دیے گئے تھے۔ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں’ سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں بطور رزق عطا فرمائیں تا کہ تم شکر کرو۔(انفال:٢٦) عید آزاداں شکوہ ملک و دین عید محکوماں ہجوم مومنین۔

Agha Durrani

Agha Durrani

تحریر:پروفیسر حافظ عبدالاعلےٰ درانی۔۔بریڈفورڈ
aala121@hotmail.com