پاکستانی جمہوریت کے نرِالے انداز حکمرانی

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

پاکستان کی تاریخ میں 18 جون کا دن تاریخی حثیت کا حامل بن چکا ہے کیونکہ آج کے دن پاکستان میں رائج غیرآئینی انداز حکمرانی کو بدلنے کا نعرہ بلند کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے گھر اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ سے حفاظتی رکاوٹیں ختم کرنے کے نام پر جو خون کی ہولی کھیلی گئی ہے کیمرے کی آنکھ سے پاکستان کے تمام الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا گیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان میں رائج نام نہاد جمہوریت کی قلعی کھل کر پوری دنیا کے سامنے ا گئی۔

حکومت پنجاب نے جس سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے عوام پر ڈائریکٹ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیس افراد شہید کر دیئے گئے اور تقریباً بیاسی افراد زخمی ہوئے اس واقعے میں دو باتیں خصوصی طور پر قابلِ غور ہیں یعنی اندازِ حکمرانی اور معروف شخصیات کی رہائشوں کے قریب حفاظتی رکاوٹیں۔

اگر حفاظتی رکاوٹیں ہٹانا وجہ نزع قرار دیا جائے تو قادری صاحب کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر یہ حفاظتی رکاوٹیں لاہور ہائیکورٹ کی اجازت سے چار سال پہلے لگائی گئی تھیں اور اجازت نامہ حکومتی اہلکاروں کو پیش بھی کیا گیا۔

اس سلسلے میں دلچسپ حقائق کے طور پر جیو ٹی وی کے مشہور اینکرسہیل وڑائچ جو کہ اسی محلے کی امن کمیٹی کے ممبر بھی ہیں انہوں نے بھی پولیس کوباور کرانے کی کوشش کی جو کہ ناکام ثابت ہوئی اور پولیس نے حفاظتی رکاوٹیں ہٹانا شروع کردیں جس پر اس رہائش پر مامور افراد کے ساتھ تصادم برپا کر دیا گیا اور ان نہتے افراد پر آنسو گیس لاٹھی چارج اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی حالانکہ پاکستان بھر میں مقتدر سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے گھروں کو کسی بھی ممکنہ دہشت گردی سے بچانے کے لیئے حفاظتی رکاوٹیں موجود ہیں ان تمام حفاظتی رکاوٹیں سے صرفِ نظر برت کر ڈاکٹرطاہر القادری کی رہائش گا ہ پر مرکوز کر دی گئی جوکہ یقیناً معنی خیز ہے . . . . . یہاں سے حکومت کے نرالے اندازِ حکمرانی کی شروعات ہوتی ہیں۔

پاکستانی عوام بھی کیسے عوام ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ زدہ عوام ہیں ایک تازہ حکومتی رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد عوام خطِ غربت سے بھی نیچے پہنچ کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں ہو شربا مہنگائی کے شکار ہیں نوکری اور انصاف سے محروم عوام ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر جان ومال عزت و عصمت کے عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں …….. ایسے عوام کے سامنے یہ نرالا اندازِ حکمرانی ؟ کیا لاہور میں ریاستی دہشت گردی کی یہ بدترین مثال کوئی معمولی واقعہ ہے ؟ یقیناً ہر گز نہیں، ہر گز نہیں۔

Inflation

Inflation

کیونکہ پاکستانی عوام کو دل فریب نعروں سے ورغلانہ اب مشکل ہوتا جا رہا ہے . . . . . ذرا ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو آپ کو کیسے کیسے نعرے یاد آجائیں گے کسی نے کہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو کسی نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ بلند کیا وطن عزیز سے محبت کرنے والے اور وطن عزیز کو خوشحال ملک دیکھنے کا خواب سجائے عوام ہر بار ان سیاسی بیوپاریوں کے دام میں پھنستے رہے ہیں . . . . کیا ماضی کی کسی حکومت نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر وطن عزیز کو خوشحالی دینے کے لیئے حقیقی اقدام اٹھائے ہیں ؟ قرض اتار کر ملک سنوارنے والے بتائیں کہ اس مملکتِ خداداد کی قرض سے جان چھڑا لی گئی ہے ؟ یقینا آپ کا جواب نہیں میں ہے ……. جس کی سب سے بڑی وجہ وطن عزیز میں آئین کی عملداری کا فقدان ہے۔

حکمران آئین کی عملداری میں غیرسنجیدہ ہیں ایسے میں ڈاکٹرطاہرالقادری نے آئین کی حکمرانی کا نعرہ بلند کیا تو عوام میں اس نعرے کو پذیرائی نصیب ہو گئی لیکن ملکی خزانے پر عیش کرنے والے حکمران اس نعرے کو اپنی موت سمجھنے لگے ہیں لاہور کے دلخراش واقعے کے پیچھے ایک سوچ یہ بھی ہے کیونکہ عیش پرست حکمران قانون اور آئین کی حکمرانی تلے زندگی نہیں گزار سکتے لہذا ایسی صورتحال سے بچنے کے لیئے یہ نرالا اندازِ حکمرانی اپنایا گیا ہے . . . . . جس طرح یہ اندازِحکمرانی عوام کے نزدیک نفرت آمیز بن جاتا ہے اور آخرکار ایسے حکمرانوں کے راج کے خاتمے تک پہنچا دیتا ہے دنیا کے بے شمار ملکوں میں ایسی مثالیں وافر ملتی ہیں۔ کیا عوام پاکستان کو بنیادی حقوق کی ضرورت نہیں۔

پاکستان کب تک عیش پرست حکمرانوں کو پالتا رہے گا اور عوام سے زبردستی ٹیکس وصول کرکے یہ حکمران اپنی عیاشیاں کرتے رہیں گے ؟ لاہور کے واقع نے ایسے حکمرانوں کے ظالمانہ نظام کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونک دی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا کہ پاکستان کا روشن مستقبل شاید ان شہیدوں کے خون کا منتظر تھا اور ظلم کی سیاہ رات ختم ہونے والی ہے۔

Lahore Tragedy

Lahore Tragedy

انشاء اللہ بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لیئے قربانیاں بھی بڑی دینا پڑتی ہیں اوریہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس کی طرح واضع ہے کہ ظلم بربریت، جبر اور تشدد یزیدی عمل ہے جبکہ اپنے حقوق کے لیئے ڈٹ جانا اور خون کا نذرانہ پیش کر دینا حسینی عمل ہے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جسکو کبھی موت نہیں، جسکو کبھی ہار نہیں تعجب ہے ان حکمرانو پر جو عوام سے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر ظلم و تشدد کا راستہ اپنا کر بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔

تحریر : امانت علی چوہان