پنجاب پولیس کی ماڈل ٹائون میں ریاستی دہشت گردی بارھ گھنٹے تک جاری رہی لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔آٹھ لاشیں گرنے کے بعد خادم اعلیٰ کو ہوش آیا اور کہا کہ عدالتی کمیشن نے اگر مجھے ذمہ دار ٹھہرایا تو میں استعفیٰ دینے کو تیار ہوں ،پاکستانی قوم سوچ رہی ہے کہ جس خادم اعلیٰ کو بارہ گھنٹے تک اپنے پڑوس میں پولیس کی باوردی دہشت گردی کی خبر نہیں وہ کیسا خادم اعلیٰ ہے۔
ماڈل ٹائون تو مقبوضہ کشمیر کا منظر پیش کر رہا تھا ،جسطرح بھارتی افواج کشمیریوں مسلمانوں پر مظالم کرتی ہیں اسی طرح ماڈل ٹائون میں بے گناہ خواتین پر بھی تشدد کیا گیا اور فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں دو خواتین ہاتھ سے جان دھو بیٹھیں،ان کا خون کس کے سر پر ہے؟ جاں بحق ہونیوالی دونوں خواتین کی نعشیں جناح ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کی گئیں۔ تنزیلہ امجد کے بائیں جبڑے پر گولی لگی جو دوسری جانب نکل گئی جبکہ تنزیلہ کی بھابی شازیہ کو ایک گولی گردن، دوسری بائیں کندھے پر لگی جس سے انکی موت واقع ہوگئی۔ تنزیلہ امجد 4 بچوں کی ماں تھیں، انکے بچے خاص کر بڑی بیٹی ماں کو یاد کر کے روتی رہی۔ ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر پولیس ایکشن کے دوران گلو بٹ نامی شخص پولیس کی موجودگی میں گاڑیوں کے شیشے توڑ تا رہا ، بتایا گیا ہے کہ گاڑیوں کے شیشے توڑنے والا مسلم لیگ(ن) کا کارکن اور فیصل ٹاؤن کا رہائشی ہے ، اپنے بازو پر پولیس کا بیج لگا ئے یہ شخص ڈنڈا اٹھائے پولیس والوں سے بھی آگے جا کر مظاہرین کی پٹائی کرنے میں بھی پیش پیش رہا ، غر یب دکاندار وں کا ما ل لو ٹ کر پو لیس کو ٹھنڈی بوتلیں پیش کر تا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ ا س کا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے قریبی تعلق ہے۔
شہباز شریف گلو بٹ کو ”شیر پنجاب” کہتے ہیں۔پنجاب پولیس کی جانب سے”آپریشن ” مکمل ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے سینئرمرکزی رہنما اور سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی نے ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کا دورہ کیااورانکے صاحبزادے حسن محی الدین سے ملاقات کی۔چوہدری پرویز الہی نے جناح ہسپتال کا دورہ بھی کیا اور زیر علاج سانحہ لاہور کے زخمیوں کی بھی عیادت کی اور ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ اس موقع پر نہایت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔اس موقع پر چوہدری پرویز الہی نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر حکومتی جبر و تشدد اور براہ راست فائرنگ کو ملکی سیاسی تاریخی کا بدترین واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کی خواتین، بچوں اور کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس طرح سینوں میں گولیاں مار کر خون میں نہلا دینے کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس خونی ایکشن کے ذمہ دار اور اصل قاتل نواز شریف اور شہبازشریف ہیں جن کے براہ راست حکم پر یہ سفاکانہ کارروائی کی گئی جس کا مقصد عوامی تحریک سے پاک فوج کا بھرپور ساتھ دینے کا بدلہ لینا اور ڈاکٹر طاہر القادری کو وطن واپس آنے سے روکنا تھا، اس بربریت سے حکمرانوں کے جانے کی ابتدا ہو گئی ہے اور بے گناہوں کو سیدھی گولیاں مار کر بلاوجہ خون بہانے والوں کے مقدر میں رسوائی لکھی جا چکی ہے۔
قاتلوں کے قائم کردہ کمیشن کو نہیں مانتے، بیگناہوں کا خون خود انصاف کرے گا۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ آج لاہور میں پنجاب کے نریندر مودی شہباز شریف نے وہی کچھ کیا جو بھارتی گجرات میں نریندر مودی نے بیگناہ مسلمانوں کا خون بہا کر کیا تھا وہاں بھی اور یہاں بھی قرآن پاک شہید کیے گئے، ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر میں گولیاں لگنے کے نشانات موجود ہیں جبکہ قرآن پاک کے بکھرے ہوئے اوراق میڈیا پر بھی دکھائے گئے۔ عوامی فلاح و بہبود کی ہماری تحریک میں معصوم بچوں، خواتین اور نہتے شہریوں کا خون شامل ہو گیا ہے جسے اب کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا، یہ حکمران کیا انصاف دیں گے جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں رنگے ہیں، قاتلوں کا کمیشن قائم کرنا مسئلہ کا حل نہیں، نواز اور شہباز شریف کو اس بربریت کا حساب دینا ہو گا، اب شہیدوں کا خون رنگ لائیگا اور خود انصاف کرے گا، آج پاکستان مسلم لیگ ہی نہیں ہر محب وطن شہری عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
Pak Army
حکمرانوں کی ایسی وحشیانہ اور انتقامی کارروائی کا اگلا نشانہ پاکستان مسلم لیگ، ایم کیو ایم، سنی اتحاد کونسل اور وہ تمام جماعتیں بھی بن سکتی ہیں جنہوں نے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف سازش اور اسے بدنام کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے ملک بھر میں ریلیاں نکالیں اور پاک فوج کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا لیکن پاک فوج کے یہ دشمن یاد رکھیں کہ وہ ایسی حرکتوں سے محب وطن لوگوں کو پاک فوج کی حمایت سے باز نہیں رکھ سکتے، ایک طرف تو پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے اور پوری قوم اس کی کامرانی کیلئے دعا گو ہے اور دوسری جانب یہ حکمران فوج کے حامیوں سے بدلہ لینے کیلئے انہیں بلاوجہ خون میں نہلا کر فوج کے آپریشن کو کمزور کرنے کی سازش پر عمل کر رہے ہیں، پولیس والے سفاک حکمرانوں کے نہتے عوام پر گولیاں چلانے جیسے غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں ورنہ ان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ دینے والے ایسے پولیس افسروں کا بھی جلد کڑا احتساب ہو گا۔ عوامی تحریک کے کارکنوں پر فائرنگ اور جبر و تشدد کا کوئی جواز نہیں تھا ہمارے دور میں وکلاء کی اتنی بڑی تحریک چلی لیکن کسی کو تھپڑ تک نہیں مارا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ وہ اس خونی کارروائی سے لاعلم تھے جو ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں ہی ہو رہی تھی۔
حکمرانوں اور پولیس افسروں کی اپنی رہائش گاہوں اور دفاتر کے باہر بھی بیریئر موجود ہیں جبکہ یہ بیرئیر تو ہائیکورٹ کے حکم پر پولیس اور علاقہ مکینوں کی موجودگی میں لگائے گئے تھے، دراصل یہ حکمران صرف بدلہ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں خود بھی اس کا بدلہ دینا ہو گا اور وہ دن دور نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ان کے گھر اور دفاتر کی سکیورٹی ختم کرنے کا مقصد ان کے دشمنوں کیلئے راستہ صاف کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
ماڈل ٹائون واقعہ فسطانیت اور بربریت کی بدترین مثال ہے، حکومت نے ریاستی دہشتگردی کی، لاہور میں 8افراد کا ناحق قتل کیا گیا ،جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،حکمرانوں کا اقدام جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے ،شہباز شریف ،رانا ثناء اللہ واقعہ کے ذمہ دار ہیں دونوں استعفیٰ دیکرخود کو قانون کے حوالے کریں۔ حکمران اور انتظامیہ اپنی جانیں بچانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں،مگر حکمران یاد رکھیں جتنی قتل وغارت کی گئی اس کا حساب حکمرانوں کو دینا پڑیگا،ڈیشل کمیشن کا قیام قبول ہے نہ حکمرانوں کی کسی انکوائری پر یقین ہے، واقعہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا ،ہم شہباز شریف کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
Punjab Government
ماڈل ٹائون سانحہ کے اصل ذمہ داران پنجاب کے حکمران ہیں، اس بربریت سے حکمرانوں کے جانے کی ابتدا ہو گئی ہے۔ اب شہیدوں کا خون رنگ لائیگا اور خود انصاف کرے گا۔آج پاکستان مسلم لیگ ہی نہیں ہر محب وطن شہری عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ حکمران فوج کے حامیوں سے بدلہ لینے کیلئے انہیں بلاوجہ خون میں نہلا کر فوج کے آپریشن کو کمزور کرنے کی سازش پر عمل کر رہے ہیں، پولیس والے سفاک حکمرانوں کے نہتے عوام پر گولیاں چلانے جیسے غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں ورنہ ان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ دینے والے ایسے پولیس افسروں کا بھی جلد کڑا احتساب ہو گا۔ حکمرانوں اور پولیس افسروں کی اپنی رہائش گاہوں اور دفاتر کے باہر بھی بیریئر موجود ہیں جبکہ یہ بیرئیر تو ہائیکورٹ کے حکم پر پولیس اور علاقہ مکینوں کی موجودگی میں لگائے گئے تھے، دراصل یہ حکمران صرف بدلہ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں خود بھی اس کا بدلہ دینا ہو گا اور وہ دن دور نہیں۔