فوج کسی بھی ملک کی کل آبادی کا بہت چھوٹا مگر پاورفل حصہ ہوتی ہے لیکن اتنی تھوڑی تعداد پر منحصر یہی قلیل فوج اس ملک کی عظیم آبادی کی حریت اور آزادی ان کی جان، ان کے مال اور ان کی عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے۔ آگر کسی ملک کی فوج ہار جائے تو اس ملک کی پوری آبادی کو ذلت و رسوائی کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اس تھوڑی سی فوج کی شکست سے ایک پوری قوم غلام بن جاتی ہے اور ملک ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔
پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کے اندرونی غدار ہماری فوج کو کمزور کر کے ملک پہ قابض ہو کر ہمیں اغیار کا غلام بنا نا چاہتے ہیں۔ ان اندرونی غداروں میں طالبان دہشت گرد سرفہرست ہیں۔ جن کے خلاف حکومت کے تعاون سے پاک فوج نے جنگ (آپریشن ) کا آغازکر دیا ہے۔ بظاہر جنگیں فوجیں ہی لڑتی ہیں۔ مگر فتح کی دیوی اس پر مہربان ہوتی ہے جس فوج کے پیچھے اس کی عوام کھڑی ہوتی ہے۔ فوجیں ایسی نہیں ہوتیں کہ اپنے لوگوں پر استعمال کی جائیں۔ لیکن جہاں حالات پاکستان جیسے ہوں تو پھر مجبوراََ ایسے قدم اٹھانے ہی پڑتے ہیں۔
ہمیں صبر کے ساتھ قربانی کے لیئے تیار ہونا چاہیئے کیونکہ یہ جنگ کوئی ایک دو دن کی جنگ نہیں بلکہ یہ طویل اور صبر آزما جنگ ہے اس میں ہم جتنی جلد زیادہ قربانیاں دیں گے اور صبر کا مظاہرہ کریں گے اتنا جلد کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔کہتے ہیں سانپ جب زخمی ہو جائے تو وہ اور زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور اٹھ اٹھ کے وار کرتا ہے مگر یہ طالبان دہشت گرد( ازبک، تاجک، چیچن، افغان وغیرہ)ہماری آستین کے سانپ ہیں یہ پہلے بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے مگر اب تو ان سے اور بھی محتاط رہنا پڑیگا۔ خاص طور پر یہ ملک میں سیکورٹی نظام پر سخت توجہ دینی پڑیگی۔ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو فوج کیساتھ ملک کران عالمی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہو گا جو ہمارے ملک میں پناہ لیکر ہمارے سیکڑوں ہمارے پیاروں ہمارے جگر گوشوں کو ہم سے جدا کر چکے ہیں۔ تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں اور پوری قوم متحد ہو کر فوج اور حکومت کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ ماسوائے چند مذہبی جماعتوں کے ؟ عمران خان طالبان مذاکرات کے سب سے بڑے حامی تھے۔ مگر ملکی بقا کی خاطر انہوں نے بھی فوج کی حمایت کااعلان کردیا۔
Karachi Airport Attack
ہم سب مظلوم ہیں اور ہم نے ان ظالموں (دہشت گردوں) کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ ایسے زخم جو کبھی سل نہ پائیں گے۔ روالپنڈی جی ایچ کیو پر حملہ ہویا بنوں جیل پر، ڈی آئی خان کی جیل پر حملہ ہو یا مذہبی عبادت گاہوں پر، عاشورہ محرم کی مجلسوں پر حملہ ہو یا چہلم کے جلوسوں پر، عیسائیوں کے چرچ پر حملہ ہو یا ٹرین کی بوگیوں کو دھماکے سے اڑا دیا جائے۔ مقدس مقامات پر حملہ ہو یا کراچی ائیرپورٹ پریا خواہ کوئی بھی خود کش حملہ ہو ان حملوں نے ہمیں ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں اپنے ہم وطنوں عزیزوں ، جگر گوشوں کی لاشیں بوریوں میں اٹھانی پڑی ہیںاور 150 جنازے اکٹھے اٹھائے ہیں۔مگر اب ہم میں مزید جنازے اٹھانے کی ہمت نہیں ۔یہی دہشت گردی اب تک ہماری معیشت کو103 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہیں۔ کراچی ائیرپورٹ حملے کے بعد تو صبر کی کوئی کنجائش ہی نہیں ہے۔ ضرب عضب کے نام سے آپریشن جاری ہے اس کا نام ضرب عضب اس لیئے رکھا گیا ہے کہ حضور بنی کریم ۖ کی تلوار ضرب عضب جس کے معنی کاری اور فیصلہ کن وار ہے سے منسوب کیا گیا ہے۔ وہ انیں کاٹ کر رکھ دے گی اور دہشتگردوں کا آخر تک پیچھا کیا جائے گا۔ اب ان ظالموںکی باری ہے اب ان پر عذاب کا کوڑا برسنے کا وقت آگیا ہے۔ فوج نے اب تک دہشت گردوں سے 40 فیصد علاقہ صاف کروالیا ہے۔ اب تک ان کے کئی ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں۔
کراچی ائیرپورٹ ماسٹر مائنڈ سمیت سیکڑوں دہشت گردوں کی ہلاکتوںکی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ یہ فتح فتح مکہ کی طرح ہو جس میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی تھی۔ دانش مند قومیں کبھی بھی بہت سارے محاذ ایک ساتھ نہیں کھولتیں حکومتی پارٹی کو بڑے بھائی کا کرداراداکرنا ہوتا ہے اگر چھوٹے بھائیوں سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیا اچھا ہوتا کہ یہی کردار شریف حکومت لاہور میں ادا کرتی تو قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتیں۔ قوم کے لب پر ابھی شکر کے کلمات تھے کہ اچانک یہ حوصلہ شکن اور سفاکانہ اقدام جو نہ تو حکومت کے حق میں متحمل ، نہ وہ اس کی متحمل ہو سکتی تھی۔ جب ایک سال لگا کر طالبان سے مذکرات ہو سکتے ہیں تو طاہرالقادری سے کیوں نہیں۔ اس نے تو پہلے بھی کارکنوں کو پر امن رہنے کا درس دیا تھا ڈاکٹر طاہر القادری دہشت گردوں کے سخت خلاف تھے اور انکا فتوی پوری دنیا میںپھیلا ہوا ہے اس حوالہ سے وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ جب عمران خان نے بہاول پور میں 22 جون کو ہونے والے جلسے کی منسوخی کا اعلان کر دیا تھا۔ ٹرین مارچ بھی شیخ رشید نے منسوخ کر دیا تھا تو طاہر القادری بھی منسوخ کر دیتے حکومت انتظار تو کرتی ۔ حکومت کو کیا پڑی تھی کہ لاہور جیسے پر امن شہر کے سیکرٹریٹ میں بیرئیر ہٹانے کا بہانا بنا کر دو خواتین سمیت 8 کارکنوں کو پولیس کے بربریت کا شکار بنا دیا اور پولیس پارٹی نے فائرنگ کر کے نہتے کارکنوں کو لقمہ اجل بنا کر ابدی نیند سلا دیااور 85 سے زائد کارکنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما گلو بھائی کی دھڑلے سے قیمتی گاڑیاں توڑنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی ویڈیو بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔
گزشتہ چند ماہ کی بات ہے کہ شریف برادران کی کوٹھی پہ پالتو موروںکا کسی بلے نے مار دیا تو انہوں نے غفلت برتنے پر ناجانے کتنے ملازموں کو برطرف کر دیا تھا مگر یہاں تو حکومت کی آشیر باد سے پولیس نے کارکن عورتوں اور مردوں پہ اتنا تشدد کیا جس پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ حکومت بوکھلا چکی ہے۔ کوٹھی پہ تعینات ملازموں کی غفلت تو شریف برادران کو نظر آگئی مگر اپنی غلطی نظر نہیں آئی دیکھتے ہیں خادم اعلیٰ مستفی ہوتے ہیں یا نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب اس واقعہ کی تحقیق کے لیئے جوڈیشل کمیشن کا ڈھنگ رچا کر عوام اور مرنے والوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھ کے ان کے غم و غصہ کو کنٹرول کرنے کی سعی ناکام کوشش کی ہے۔ ہماری فوج پہلے ہی دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے حکومت نے بجائے اعتماد میں لینے کے دوسری جنگ کا آغاز کر دیا ہے میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایسے حکمرانوں سے نجات دے اور ایسے حکمران پاکستان میں بھیجے جو پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر کے امن و امان کا گہوارہ بنائیں۔ آمین
Mubarak Shamsi
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com