کرّۂ عرض پر جب شیطان صفت لوگ انسانیت کا جامہ اُتار دیں، جب تہذیب و شائستگی کا جنازہ ہر سُ نکال کر مذہبی و سماجی حدوں کو پار کر جائیں اور ڈھٹائی، بے غیرتی و بے شرمی کی انتہا ہو جائے تو ایسے ہی روح فرسا وارداتیں رونما ہوتی ہیں جن سے آ ج کل کے اخبارات و میڈیا بھرے پڑے ہیں۔ تواتر اور تسلسل کے ساتھ انسانی قدروں کو بے رحمی و سفاکی سے پامال کر کے ملک کے شریف عوام النفس کو خون کے آنسو پہانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
بدمعاشوں، غنڈوں، شر پسندوں نے اس ملک کے سیدھے سادھے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ان بدقماش لوگوں نے اس جنت نظیر ملک کو جہنم زار بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے دوراہے پر پاک فوج نے آپریشن ” ضرب عضب ” کا آغاز کر دیا ہے۔ اور ملک کے تمام ہی سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعت کے اس آپریشن کے حق میں بیانات دے چکے ہیں۔ایسے میں آرمی چیف کا بیرونِ ملک کا دورہ ملتوی کرنا بھی نیک شگون ہے۔ اب یہ امکانات ہو چکے ہیں کہ ملک میں امن و امان کا راج قائم ہونے کو ہے۔مستقبل میں پاکستانی عوام کو یقینا امن و امان نصیب ہونے والا ہے۔ اور آپریشن کی کامیابی بھی یقینی ہے کیونکہ آپریشن کا یہ نام بھی حضور اکرم ۖ کے تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے تو پھر شکست پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان کا مقدر کیسے بن سکتی ہے۔ اور ہماری افواج نے چند دنوں میں ہی دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ اور روزانہ ہی انہیں کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔اور ایسی ہی کامیابیاں حاصل کر کے انسانیت کا سر نگوں ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ملک میں اب انسان نما وحشی لوگوں کی کثرت ہے۔ چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہوں، اب کل ہی آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ پاکستانی عوامی تحریک کے مرکز پر کس طرح بربریت بپا کیا گیا۔ گیارہ بے گناہ افراد کی جانیں چلی گئیں جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اور اسّی کے قریب زخمی ہیں۔ جمہوریت کے دعویدار کہاں ہیں، یہ ایکشن جس میں بربریت کی انتہا کر دی گئی کس کے کہنے پر کیا گیا، کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ امن پسند شہریوں کو ہراساں اور رنجیدہ کر دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ملک غنڈوں اور جرائم پیشہ افراد کی آما جگاہ بن گئے ہیں اور وہ جہاں چاہتے ہیں وہیں کاروائیاں کر ڈالتے ہیں۔ کل لاہور میں ایک اور واقعہ رونما ہوا جس میں متحدہ قومی موومنٹ کی خاتون رکن قومی اسمبلی کو فائرنگ کے واقعہ میں شدید زخمی کر دیا گیا ۔ مذمت اور بیانات تو سبھی دے ڈالتے ہیں مگر عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا۔ ہر واقعہ رونما ہو جانے کے بعد اس پر کمیشن، مذمت اور پتہ نہیں کیا کیا ایکشن کرتے پھرتے ہیں مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ آخر پہلے سے انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے کہ ایسے واقعات رونما ہی نہ ہوں۔ ایسے عملی اقدامات کئے جائیں کہ گرفتار ہونے والے لوگ سزا سے نہ بچ پائیں۔ اور سزائیں بھی ایسی ہوں کہ ایسے لوگ کوئی بھی جرم یا گناہ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔
ملک بھر میں افرا تفری اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے علاوہ نشانہ وار قتل ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم بھی روز افزوں ہو رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی”اور قانون و نظام کو شفاف بنانے کی سمت میں حکومت کی ہر کوشش ناکام اور” الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نہ کام کیا”کی طرح نظر آ رہی ہیں۔ ریاست میں جرائم کی متعدد سنگین وارداتوں کے سبب حکمران جماعت سخت تنقیدوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اور وزراء بڑی ڈھٹائی سے یہ بیانات دیتے رہتے ہیں کہ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کے حالات ملک میں بہتر ہیں۔ نواز حکومت کی قسمت کا ستارہ اسی وقت سے گردش میں ہے جب سے ان کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
Nawaz Sharif
ملک میں بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر صاف لفظوں میں شفاف عملی اقدامات اٹھائیں، جس طرح وزیرستان آپریشن کے سلسلے میں مل کر لائحہ عمل طے کرکے اقدامات کئے جا رہے ہیں اسی طرح ملک بھر میں امن و امان کے حوالے سے متفق ہوکر امن و امان قائم کیا جائے۔بصورتِ دیگر ان کی حکومت کو تنقید کا سامنا رہے گا اور اس فکر کو محض سیاسی ہی تصور کیا جائے گا۔
ماضی سے اب تک جتنے حکمراں اس ملکِ عظیم میں رہے سب مفاد پرست اور اقتدار کے بھوکے رہے۔ دنیا بدل گئی، حالات بدل گئے، انسان کی سوچ بدل گئی لیکن یہ سیاسی لیڈر اور حکمراں وہی اپے پرانے طرزِ عمل پر گامزن ہیں۔ ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انسانی رحم کی ان میں کوئی رمق نظر نہیں آتی۔ انسانی ہمدردی کی کوئی جھلک ان میں دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا کے ایسے قاتلوں اور بے رحموں کو ملک میں سیاست گر کسی بھی صورت میں نہیں کہا جانا چاہیئے۔ ہر نظام حکومت عوام کے لئے خونریزی لیے ہوئے ہے؟ کیا لاہور کا واقعہ خونریزی نہیں ہے، کیا بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا خون ریزی نہیں ہے؟اس تناظر میں انسان کیا سوچ رہا ہے، یہ وہی جان سکتا ہے۔ لیکن جو کچھ بھی سوچ رہا ہوگا وہ ضرور یہ سوچ رہا ہوگا کہ دنیا کا نظامِ حکومت حکمرانوں کی بد ترین سوچ کی وجہ سے ہی بد ترین صورت اختیار کرتا ہے۔
شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
آج کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو ساری کائنات بد امنی اور بے چینی کے دہانے پر فریادی نظر آرہی ہے۔ بیحد افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس بیچینی اور بد امنی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔سب کو ہی یہ بات معلوم ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد امن پر ہے۔ یہاں تک کہ وہ انسانی برادری جو کسی بھی مذہب سے متعلق نہیں ہیںاس کا بھی بہت گہرا تعلق امن سے ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور قرآنِ مجید میں واضح حکم ہے کہ زمین پر فتنہ و فساد برپا مت کرو لہٰذا اسلام کے رُخ سے یہاں پر مذاہب مخالف امن دشمن عناصر کو پہچاننا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ غور صرف اتنا کرنا ہے کہ زمین پر فتنہ و فساد کی کھیتی کون کر رہا ہے۔
ظاہر ہے جو لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں ان کا اسلام سے کیا کسی بھی مذہب یا امن پسند برادری سے رشتہ نہیں ہے۔ اور پھر ہمارا ملک تو وجود ہی اسلام کے نام پر ہوا ہے۔ مگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا بیج بو دیا گیا ہے کہ قتل و غارت گری رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ خدا خیر کرے اور ہمارے سپہ سالاروں کو ہمت و استقامت دے کہ وہ ملک میں امن و امان کو قائم کر سکیں۔اور اس ملک کے عوام کو امن و امان نصیب فرمائیں۔ ایسا پائیدار امن کہ پھر کبھی اس ملک میں قتل و غارت گری پنپ نہ سکے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں متفق ہر کر فیصلے کریں۔