پاکستان میں خوشی کے موقع پر وہ تئیس مارچ ہو ، چودہ اگست یا کوئی بھی ملکی ، سیاسی ، مذہبی یا ثقافتی تہوارہم لوگ جس جوش و خروش سے ہتھیاروں کی نمائش اور ان کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں وہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی مصیبتوں ، جھگڑوں ، دشمنیوں ، سیاسی پارٹیوں ، مذہبی فرقوں اور ان گنت بے سر وپا مسائل نے سَر اور پَر نکالنے شروع کر دئے ، جن محب وطن ، ذمہ دار ، اور فرض شناس لوگوں نے اس ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا آج انہیں کوئی جانتا تک نہیں اور جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا وہ اس ملک کے ان داتا ، لیڈر ، رہنما اور مالک بن بیٹھے، ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر لانے کی بجائے مختلف ادوار میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی اور دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
زخمی پاکستان کی کمر پر آخری کیل جنرل ضیا الحق نے ٹھوکی، ہمسایہ اور اسلامی ملک ہونے کا حق ادا تو کیا لیکن ہمسایہ ملک کے نہ ختم ہونے والے مسائل اور بحران اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دئے، افغانیوں نے پاکستان میں قدم رکھتے ہی جو پہلے ہی چند جاہلوں کی مہربانی اور حب الوطنی سے بہت کچھ گنوا چکا اور مختلف بیماریوں میں مبتلا تھا مزید دو نئی کینسر سے بھی بدتر اور اذیت ناک بیماریاں پورے ملک میں پھیلا دیں نمبر ایک منشیات اور نمبر دو ہتھیار، ان دونوں بیماریوں سے رفتہ رفتہ پورا ملک تباہی کے دھانے پہنچا دیا گیا۔
ملک کے تمام نوجوانوں کو منشیات کی لت لگ گئی ، صوبہ سرحد سے سندھ تک ہر گھر میں کلاشنکوف لولی پاپ کی طرح پھیلا دی ، قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں چند مفاد پرستوں نے اسے گھر کی باندی بنا دیا ،بات بے بات لوگوں نے منہ کی بجائے بندوقوں کے دھانے کھول دئے اور جنگ کا سماں پیدا ہو گیا یہ تھا چودہ اگست کو معرضِ وجود میں آنے والے ایک اسلامی ملک کا روزِ زوال۔
بیٹا پیدا ہوا تو گولی چلی، بیٹے کی شادی ہوئی تو گولی چلی، تھرڈ کلاس غنڈے نے اپنے علاقے سے الیکشن جیتا تو گولی چلی،عدالتی کیس جیتا تو گولی چلی، کرکٹ میچ جیتا تو گولی چلی ،غیرت کے نام پر گولی چلی، حتیٰ کہ مساجد، مدارس ،سکولز، کولج اور یونیورسٹیز تک میں ہتھیار اور منشیات کی سپلائی کی گئی ، ملوث افراد کو صبح گرفتار کیا اور شام کو چھوڑ دیا، ایک مذہب کو ٹکڑوں میں تبدیل کیا ، رنگ برنگے کُلے، ٹوپیاں اور پگڑیاں بنائیں ، زمینوں پر قابض ہونے کے لئے جرائم پیشہ افراد نے مساجد بنانے کے بہانے دیواریں کھڑی کیں اور زبردستی قبضے حاصل کئے ، شہر شہر ، گاؤں گاؤں جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو بھڑکایا ان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں بندوق تھما دی اور جہاد کا سبق دے کر ایک ہی گھر اور ملک میں ایک دوسرے سے لڑوا دیا مذہب اور سیاست کے نام پر بلوے کروائے اور الزام بیرونی ممالک کے سر تھوپا۔
کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ملک میں اس انتشار اس دہشت گردی کے اسباب کیا اور کیوں ہیں ؟سب اپنی کرسیاں ، پگڑیاں اور لال نیلے پیلے کلے بچانے کیلئے دوسروں پر الزام تھوپتے رہے ، اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز میں بغیر سوچے سمجھے جو جس کے منہ میں آیا بولا ، نہ کوئی قانون نہ کوئی ادارا نہ کوئی لائحہ عمل نہ کوئی ترتیب ، معصوم اور بے گناہ انسانوں کو دن دھاڑے سڑکوں پر قتل کروایا ، بے بس لاچار اور مجبور غریب لڑکیوں اور بچوں کو اغوا کروا کر زیادتی کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے گندے نالوں میں پھینک دیا مہنگائی اور توانائی کو ساتویں آسمان تک پہنچایا۔
کئی بار سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا جس میں کئی بے گناہ لوگ مارے گئے ، کئی مذہبی اور اسلام کے ٹھیکیداروں نے اپنے پیروکاروں کے ماتھوں پر کلمات لکھوا اور جہاد کا نام دے کر دہشت گردی کی آگ میں جھونکا ، دھماکوں کی گونج اور تباہ کاریوں سے شہر کے شہر کھنڈر بنا دئے اور روزانہ نت نئے بے ڈھنگے بیان دئے ۔کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ کیوں اس ملک کا بچہ بچہ بے وجہ مر رہا ہے؟ ڈھیٹ، بے حس ، اور ہٹ دھرم بن کر دنیا کے سیر سپاٹے کرتے رہے کسی کے سر سے جوں تک نہیں رینگی کہ اتنا تو سوچیں کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے یہ نہیں رہا تو کس پر حکومت کریں گے؟
آج ملک میں انسان کم اور ہتھیار زیادہ ہیں اور یہ ہتھیار ہی ملک کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں اسکی روک تھام کرنے والا کوئی نہیں ، کیا حکومت اندھی بہری گونگی اور اپاہج ہے کیا اتنی سی بات نہیں جانتی کہ عوام کو تعلیم، اخلاق اور تہذیب کی ضرورت ہے ہتھیاروں کی نہیں ، لیکن جس ملک میں قانون نہیں ہوگا اس کا انجام کم سے کم یہ ہی ہوگا۔
America
امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں ہر روز صفِ ماتم بپا ہونا معمول بن گیا جہاں پر تشدد واقعات نے جانی و مالی نقصان پہنچایا وہیں نئی نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے، آتشیں اسلحے کو کھلونا سمجھ لیا گیا حکومتوں کی نااہلی سے کچھ لوگ دہشت گردوں کے خوف سے تو کچھ غنڈے بدمعاش اپنی کھوکھلی دھاک بٹھانے کے انداز میں ہتھیاروں کو گلے میں لٹکائے سر عام پھرنے لگے ، اس معاشرے میں ہتھیار ایک وائرس کی طرح رچ بس گیا ، بچے جن کھلونوں سے دل بہلانے لگے وہ کلاشنکوف اور جدید اسلحہ سے مشابہت رکھتے ، پورا ملک خاص طور پر صوبہ سرحد سب سے زیادہ متاثر ہوا اور آج کل پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لانے والا شہر کراچی اسلحے کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس انٹر نیشنل شہر کو تہس نہس کیا جا رہا ہے۔
روزانہ دس بیس بے گناہ انسان اسی ہتھیار کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں ، اور حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھی ہے ، کبھی کمیشن بٹھائے جاتے ہیں کبھی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں کبھی ایمر جینسی میٹنگز ہوتی ہیں سالوں سے آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے حکومتیں اور ان کے ناکارہ کارندے اپنے اپنے بِلوں میں چھپ کر تماشا دیکھ رہے ہیں، حکومتوں کا کوئی کارندہ گولی نہیں کھاتا گولی کھانے والا راہ چلتا کوئی غریب ہوتا ہے یا پولیس والا اور یہ سب انسان ہیں، حیوان نہیں۔
حکومت سے مود بانہ التجا ، گزارش ہے کہ کراچی شہر کی حالت ِ زار پر رحم فرمایا جائے ،شہر اور شہریوں کو زندہ درگور نہ کیا جائے ،یہ شہر آباد رہنے دیا جائے ،تاکہ لوگ آرام و سکون سے جی سکیں اور ملک و قوم کی خوشحالی و ترقی کیلئے بے خوف و خطر اپنا فریضہ انجام دے سکیں۔
اپنے ایک کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ ہتھیاروں کی نمائش پاکستان فلم انڈسٹری سے ہوئی ، آج کے ترقی یافتہ دور میں گزشتہ دنوں ایک محب وطن فلمی رائیٹر ، پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر نے بڑے طمطراق سے روشن خیالی کا اظہار کرتے ہوئے بیان دیاکہ وہ دوبارہ فلم انڈسٹری میں روایتی فلموں کا آغاز کریں گے ان کی سوچ پر بال نوچنے کو جی چاہا ، حضور والا ملک میں جرائم کیا کم ہیں جو آپ پھر روائتی غنڈا گردی کا آغاز کرنے جا رہے ہیں کیوں نئی نسل کے ہاتھ میں قلم دینے کی بجائے ہتھیار تھمانے پر تلے ہیں کیا ساری قوم کو غنڈا بدمعاش بنانا ہے ، آفرین ہے ایسے لوگوں پر ؟شاید یہ محب وطن فلم والے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں اسی لئے ایسا تخلیقی اور قومی ترقی پسند بیان ارشاد فرمایا۔
آج کے دور میں رہنماؤں کی سیکیورٹی کے لئے جدید اسلحہ سے لیس ملازمین ہائی الرٹ رہتے ہیں حتیٰ کہ ان رہنماؤں کی جیبوں میں بھی پسٹل یا ریوولور موجود ہوتے ہیں یہاں یہ بات کوئی کیسے قبول کرے گا کہ بچوں کو ہتھیاروں سے دور رکھا جائے جب کہ ہر بڑے کے پاس ہتھیار موجود ہے پھر بھی تمام مکتبہ فکر اور بالخصوص والدین کا اس بات پر دھیان دینا لازمی ہے کہ وہ بچوں کو اس طرح کی سر گرمیوں سے دل نہ بہلانے دیں جن سے تشدد کا کلچر پروان چڑھے اگر بچوں کو بچپن سے ہی ایسی چیزوں سے دور رکھا جائے تو نو عمری میں عسکریت پسندی سے بچایا جا سکتا ہے۔
عید ، تہوار یا کسی خوشی کے موقع پر ہتھیار کی طرز پر بنے روائتی کھلونے خریدنے سے گریز کریں اور خود بھی ہتھیاروں سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ ملک کے اندر کوئی ایسا غیر ملکی نہیں جسے ہتھیار دکھا کر ڈرایا دھمکایا جائے علاوہ ازیں اس بات کو ذہن نشین کیا جائے کہ بچپن میں اسلحہ نما کھلونوں سے کھیلنے والے جوانی میں اسی طرف ہی مائل ہوتے ہیں ۔رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ ایسے کھلونوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جائے ، ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر فضول بکواس کرنے سے قوم کے مسائل حل نہیں ہوتے پریکٹیکل کر کے دکھائیں جسے ملک و قوم ہی نہیں دنیا دیکھے، لیڈر یا رہنما وہ ہوتا ہے جسے دنیا تسلیم کرے اور تاحیات یاد رکھے جیسے کہ ہٹلر، نیپولین، چرچل، مارٹین لوتھر کنگ ، مندیلا ، مادام ٹریسا، ایدھی اور سب سے بڑھ کر قائد اعظم محمد علی جناح، جو کم عرصے میں وہ سب کچھ بتا سمجھا گئے کہ ان کے فرمائے صرف تین الفاظ پر ہی عمل کیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ناصر کاظمی کے دیوان سے ایک شعر عرض ہے۔ ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے