ہمیں تنگ کیا جاتا ہے، افغان مہاجرین کی شکایت

Karachi

Karachi

کراچی (جیوڈیسک) ہم کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردی سمیت ہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں، ہم آپ کے ملک میں رہنے کی جگہ ملنے پر شکرگزار ہیں۔ ہم ہمیشہ آپ کی خوشحالی کیلئے دعاگو ہیں’۔ یہ بات حاجی عبداللہ بخاری نے پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی تقریب میں افغان مہاجرین کے نمائندگی کرتے ہوئے کہی۔

اس پروگرام کا انعقاد جمعے کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے وزارت ریاستیں و سرحدی علاقہ جات (سیفران) کے تعاون سے کراچی کے ایک ہوٹل میں کیا، جس کی تھیم ‘ ایک خاندان کا جنگ کے باعث ٹکڑے ‘ ہوجانا تھی۔

اس موقع پر کراچی کے مختلف مہاجر سکولوں سے تعلق رکھنے والے بچوں نے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے قومی ترانوں کے ساتھ ساتھ پشتو اور دری زبان میں گانے بھی گائے۔

یہ بچے پاکستان کو اپنا گھر ہی سمجھتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر کی پیدائش یہیں ہوئی اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ درحقیقت افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دن انہیں وہاں واپس لوٹ جانا ہے۔

حاجی بخاری نے کہا کہ ‘ہمیں توقع ہے کہ 2014ءکے اختتام تک ہم افغانستان واپس لوٹ جائیں گے مگر اس وقت تک ہمیں اپنی برادریوں میں پرامن طریقے سے رہنے دیں’۔ ‘ہم پاکستان میں غریب مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

اور یہاں زندگی ہمارے لئے آسان نہیں، ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، خدارا ہمیں مزید تکلیف نہ پہنچائیں، جب بھی یہاں کوئی غیرمتوقع واقعہ پیش آتا ہے آپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہم پر شک کرنے لگتے ہیں، وہ ہمیں ہراساں کرتے ہیں اور گرفتار بھی کرلیتے ہیں’۔

اقوام متحدہ میں مہاجرین کے ہائی کمیشن کے آفیسر انچارج محمد عمران کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر نے ‘ جنگوں کی انسانی قیمت : یو این ایچ سی آر گلوبل ٹرینڈ’ نامی رپورٹ جاری کی ہے جس میں سیاسی پناہ لینے کے خواہش مند اور داخلی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی تعداد ظاہر کی گئی ہے۔

‘یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلا موقع ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے’۔ انھوں نے بتایا کہ لگ بھگ پانچ کروڑ بارہ لاکھ کے قریب افراد کو 2013ءکے اختتام تک جبراً بے گھر کیا گیا، جبکہ یہ تعداد 2012ءمیں چار کروڑ 52 لاکھ تھی یعنی ایک سال میں ساٹھ لاکھ کا اضافہ دیکھا گیا۔

اس تعداد میں اضافے کی وجہ شام میں جاری جنگ ہے، جہاں گزشتہ برس کے دوران پچیس لاکھ افراد مہاجر بن گئے، جبکہ آئی ڈی پیز کی تعداد 65 لاکھ رہی۔ یواین ایچ سی آر اور انسانیت کیلئے کام کرنے والے دیگر اداروں کیلئے ان افراد کی امداد کرنے خصوصی چیلنج ہے، کیونکہ بڑی تعداد میں ایسے افراد جنگ زدہ علاقوں میں ہیں، جہاں امداد کی فراہمی مشکل ہے اور وہاں پناہ گزینوں کیلئے تحفظ کے بین الاقوامی ضوابط کا بھی زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔

محمد عمران نے مزید بتایا 2013ءکے اختتام تک پاکستان سولہ لاکھ مہاجرین کی میزبانی جاری رکھے ہوئے تھا، جو کہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے اور ان میں لگ بھگ سب افغانستان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

‘ایران میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جو گزشتہ سال کے اختتام تک آٹھ لاکھ 57 ہزار پناہ گزینوں کی میزبانی کررہا تھا، جو کہ سب افغانی ہیں’۔ اس عرصے کے دوران پاکستان سے افغانستان رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد بھی دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ 2002ءسے اب تک یو این ایچ سی آر کی معاونت سے 38 لاکھ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔